سیاسی مدوجزر۔۔۔

نئی مردم شماری کا فیصلہ نہایت ہی صائب فیصلہ ہے پر اس کو کرانے میں غیر معمولی احتیاط ضروری ہے یہ مردم شماری 2023 مارچ اور اپریل تک مکمل کر لی جائے گی وطن عزیز میں اب تک 5 مرتبہ مردم شماری ہوئی پہلی مردم شماری 1961 میں ہوئی دوسری 1972 میں تیسری دفعہ 1981 چوتھی 1998 اور پانچویں 2017 میں خوشی کی بات یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے اس مردم شماری کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے اس سے ایم کیو ایم اور پی پی ہی دونوں کا ایک دیرینہ مطالبہ مان لیا گیا ہے آخری بار مردم شماری 2017 میںہوہی تھی جس پر ایم کیو ایم اور پی پی پی دونوں کے تحفظات تھے جو اہلکار مردم شماری پر مامورہوں گے ان کی سب سے پہلے مناسب تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مردم شماری کا عمل درست طریقے پر سر انجام دے سکیں اب جبکہ مردم شماری کا ذکر چل پڑا ہے تو کیوں نہ بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی ذرا تذکرہ ہو جائے وطن عزیز کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگر اس پر بریک نہ لگی تو بھلے ہم کتنے ہی ترقیاتی منصوبے کیوں نہ بنا ڈالیں وہ سب کو چاٹ جائے گی بنگلہ دیش نے کس طرح اسے کنٹرول کیا چین نے کیسے اسے قابو کیا ان ممالک سے اس معاملے میں کیا ہم سبق نہیں لے سکتے ماہ صیام اور عیدین کے مواقع پر چاند کا مسئلہ اس ملک میں اکثر اٹھتا ہے تاہم اس مرتبہ پورے ملک میں ایک ساتھ روزہ متعلقہ ذمہ داران کی بھر پور کوششوں کا اچھا ثمر ہے ۔فواد چودھری صاحب کی یہ بات غور طلب ہے کہ اب مسئلہ چاند دیکھنے کا نہیں یہ سوچنا ہے کہ جو لوگ چاند پر ہونگے انہیں عید کیسے کرنی ہے ان ابتدائی کلمات کے بعد اب ہم ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کی طرف آ تے ہیں گزشتہ پیر کے روز بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس نے پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان نفاق پر اس وقت اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی جب انہوں نے پی ڈی ایم کے تمام عہدوں پر سے اپنی پارٹی کے عہدیداران کے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے سے نہ تو اس میں شامل چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی پی پی پی یا نواز لیگ کا البتہ اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمان صاحب کی پارٹی کا ہوا ہے اور خود مو لانا صاحب کے اپنے سیاسی مستقبل کو اس سے کافی زک پہنچی ہے اگر پی ڈی ایم پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری نہ کرتی تو ان کی عزت نفس مجروح نہ ہوتی اسی طرح بلاول بھٹو کا بھری مجلس میں شوکازنوٹس کو پھاڑ دینا بھی کوئی دانشمندانہ قدم نہ تھا اس سے بھی ان میں مزید تلخی بڑھی اور شاہد خاقان عباسی کو مجبورا یہ کہنا پڑا کہ میرے نوٹس کو پھاڑ دینے کا مطلب ہے کہ پی ڈی ایم سے خدا حافظ اب نواز شریف کی پارٹی والے شوکازنوٹس کے جاری کرنے کی تمام تر ذمہ داری مولانا فضل الرحمان صاحب کے کاندھے پر ڈال رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس ضمن میں بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں ادھر گزشتہ منگل کے روز مولانا فضل الرحمان صاحب نے جو پی ڈی ایم کے سربراہوں کی میٹنگ بلائی اس میں پی پی پی اور اے این پی کی قیادت کو دعوت نہیں دی گئی جس سے اس بات میں اب کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی کہ پی پی پی اور نواز لیگ میں تلخیاں کافی حد تک بڑھ چکی ہیں ۔