جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔۔۔۔۔

سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ سندھ میں جب عزیر بلوچ کو گرفتار کیا گیا تو یہ کہا گیا کہ اس کے خلاف 150 ایف آئی آر زہیں اب ایک ایک کر کے عدم ثبوت کی بنا پر اسے رہا کیا جا رہا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ وہ تمام مقدمات سے چھوٹ جائے گا‘ اگر اس کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے گئے تو ان پولیس افسروں اور استغاثہ کے اہلکاروں سے پوچھا جائے کہ آخر انہوں نے کیوں بغیر کسی ثبوت کے ایک فرد کے خلاف کاروائی کی تاکہ اس قسم کی حرکات پولیس والے مستقبل میں نہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ استغاثہ کے متعلقہ اہلکاروں کو بھی نشان عبرت بنانا ضروری ہوگا۔یہ میڈیا کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس معاملے کی تہہ میں جائے اور یہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اس قسم کی بے قاعدگیوں اور غیر قانونی حرکات کو اسمبلی کے فلور پر کیوں نہیں اٹھاتے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا رہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد گزشتہ منگل کو جو مختصر پریس کانفرنس کی وہ بڑی نپی تلی اور مدبرانہ تھی ان کے خطاب کے ہر ایک لفظ سے ان کی سیاسی فراست اور دور اندیشی کا پتہ چلتا تھا درحقیقت انہوں نے پی ڈی ایم کی باغی سیاسی پارٹیوں کو مصالحت کا ایک اور موقعہ فراہم کیا ہے ان کی تقریر جذبات سے عاری تھی یہ اور بات ہے کہ کیا پی ڈی ایم کو خیرآباد کہنے والے ان کی مصالحانہ پیشکش پر ان کو لبیک کہتے ہیں یا اسے مسترد کرتے ہیں واقفان حال کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب پی پی پی کو نواز لیگ پر ترجیح دیتے ہیں واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ پی ڈی ایم میں شامل کئی سفید ریش اور پرانے تجربہ کار سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اس اتحاد میں جو نفاق پیدا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ مریم نواز شریف اور بلاول کا کئی معاملات میں نامناسب رویہ تھا اب چونکہ رمضان شریف کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اس ماہ میں ہمارے سیاستدانوں کو سستانے کا کافی موقعہ مل جائے گا اور امید ہے وہ ملک کے اندرونی حالات اور کورونا کی وجہ سے ملک کی دگرگوں معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے نہیں کریں گے کہ جو عوام کے مفادات سے متصادم ہوں۔ جس ملک میں ریاستی رٹ ختم ہو جائے تو وہ ملک پھر افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے ایسے میں سب کی ذمہ داری ہے کہ اس میں اپنا کردار ادا کریں کہ حکومتی رٹ کی موجودگی میں سب کی حفاظت ہے۔ سب سے پہلے حکومت نے پولیس اور نظم و ضبط کے ذمہ دار ادارں کے اہلکاروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے۔ان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے اور پھر عوام کو بھی ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہئے کہ وہ اپنے فرائض بخوبی ادا کرسکیں۔ جو لوگ اپوزیشن میں ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ آ ج اگر وہ اپوزیشن میں ہیں تو کل کلاں وہ ایوان اقتدار میں بھی بیٹھ سکتے ہیں اور انہوں نے ریاستی نظام کو پولیس اور انتظامیہ جیسے ریاستی اداروں کے ذریعہ ہی چلانا ھے اگر آج وہ ان ریاستی اداروں کو عوام کی نظروں میں بے توقیر کر دیں گے تو پھر کل اقتدار میں ا کر وہ کیسے اپنا انتظام چلائیں گے؟ خدا را انتظامی اداروں کے ساتھ ایسا رویہ نہ رکھیں کہ وہ پست ہمت ہو جائیں اور کل کلاں وہ کسی کام کے نہ رہیں اور عوام ان کی بات پر کان نہ دھریں۔اور دیکھا جائے تو یہ سیاست دانوں کی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ عوامی نمائندوں کی حیثیت سے انہوں نے ہی ملک کو چلانا ہوتا ہے اسلئے پولیس اور دیگر نظم و ضبط لانے والے ادارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن کے وقار کو ہر حوالے سے مقدم رکھنا ان کیلئے ضروری ہے۔کہ وہ کل حکومت میں ہوں گے تو وہ بخوبی امور مملکت انجام دینے کے قابل ہوں اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو متفقہ طور پر اپنا حصہ ڈالنا ہوگا کہ انہی جماعتوں نے حکومت کا نظم و نسق چلانا ہوتا ہے۔