سنسر شپ کا فقدان 

بھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ آخر آج کل اکثر لوگ حکومت کی کسی بھی بات پر دھیان کیوں نہیں دیتے حکومتی اہلکاروں خصوصا انتظامیہ اور پولیس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جائز احکامات کو عام آدمی جوتی کی نوک پر کیوں مارتا ہے یہ بات بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومتی اہلکار اپنا کام کاج بغیر کسی لالچ کے کیوں نہیں کر رہے ان میں بے دلی اور بداعتمادی کی فضا آخر کیوں پھیل چکی ہے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف طبقوں نے بظاہر اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنی اپنی یونینز بنا رکھی ہیں جو ایک اچھی روایت ہے پر یہاں جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ حقوق کا تحفظ تو خیر اپنی جگہ ضروری ہے پر کیا حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ساتھ کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا بھی خیال ہے سیانوں نے بالکل سچ کہا ہے کہ جہالت سے بڑھ کر کوئی بھی بری بلا نہیں شخصیت سازی کیلئے خواندگی اور تعلیم کا ہونا ازحد ضروری ہے صرف تعلیم اور تربیت سے ہی ایک انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے مذہب سے دوری بھی انسان کو جانور بنا دیتی ہے شخصیت سازی کا پہلا سکول انسان کا اپنا گھر ہوتا ہے چلئے کرپشن کی ہی پہلے بات کر لیتے ہیں کہ جس کا آج کل ہر سو کافی چرچا ہے یہاں پر سب سے پہلے ہم سنسرشپ کا ذکر کریں گے کیا ہمارے گھروں میں ہمارے والدین ہمارے ماں باپ کی طرف سے ہم پر کسی قسم کی سنسرشپ لاگو ہے؟ہر ماں باپ کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس کا بچہ یا بچی جس شعبہ زندگی میں کام کر رہا ہے اس کی تنخواہ کتنی ہے اور اگر وہ کوئی کاروبار کر رہا ہے تو اس کی ممکنہ آمدنی کتنی ہے اگر اس کے خراجات اس کی ممکنہ آمدنی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ان سے میل نہیں کھاتے تو کیا کبھی کسی ماں باپ نے اپنے بچے یا بچی سے یہ پوچھا ہے کہ بھئی تمہاری تو آمدنی اتنی ہے اور یہ جو تم کروفر کی زندگی گزار رہے ہو اس کیلئے تمہارے پاس پیسہ کہاں سے آ تا ہے کیا تمہاری کوئی لاٹری نکلی ہے؟ ہم میں سے اکثر ماں باپ ان کے بچے جو بھی باہر سے کما کر گھر میں لاتے ہیں اسے من وعن قبول کر لیتے ہیں‘کرپشن ان چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں سے ہی پروان چڑھتی ہے‘اگر آپ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دنیا کو بادشاہی نظام نے بھی چلایا ملٹری ڈکٹیٹرز نے بھی اپنے اپنے انداز میں مختلف ممالک میں حکومتیں کیں اور جمہوری انداز بھی کئی ممالک میں حکومتی چل رہی ہیں ان میں کونسا نظام حکومت بہتر ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی نوابزادہ نصراللہ خان اس ملک کے ایک نہایت ہی زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان گزرے ہیں ایک مرتبہ کسی نے ان سے یہ سوال کیا کہ جمہوریت اگر صحیح نہ چلے تو پھر اس کا کیا علاج کیا جائے فرمایا کہ جمہوریت میں مزید جمہوریت شامل کر کے اسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اسی طرح ایک مرتبہ برطانیہ کے معروف وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے بڑی خوبصورت بات کہی اور وہ یہ تھی کہ یہ ضروری نہیں کہ جمہوری نظام ہی دنیا کا بہترین نظام حکومت ہو پر سر دست یہ سب سے بہترین نظام ہے ہے ہاں اگر کل کلاں اس سے کوئی بہتر نظام عالم وجود میں آتا ہے تو اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ آ پ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہو گی کہ اکثر حکومتی زعما کے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے مافیاز ملک میں مضبوط ہورہے ہیں۔ آخر ان مافیاز کا قلع قمع کون کرے گا؟ان کا صفایا حکومت نے ہی تو کرنا ہے عوام ان کے ہر اس اقدام کو سراہیں گے کہ جو عوام دوست ہو گا اور ان کی بھلائی کیلئے ہو گا حکومت کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے چشم زدن میں اقتدار میں اس کا آئینی وقت ختم ہو جائے گا۔