افغانستان کے صدر نے یہ بات تو بڑی آسانی سے کہہ دی کہ افغانستان کی سر زمین سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی اپنی نیشنل آرمی اس قابل ہے کہ وہ ملک کی بقا کی حفاظت کر سکے پر اس نیشنل آرمی کا ٹریک ریکارڈ کوئی زیادہ قابل رشک نہیں ہے۔ امریکہ اور بھارت کے فوجی ماہرین نے بڑی محنت اور بڑے پیسے خرچ کر کے گزشتہ پندرہ برسوں میں افغانستان کی نیشنل آرمی تشکیل دی تھی‘ پاکستان نے بھی چاہا تھا کہ وہ اس کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالے پر افغان حکومت نے اس مقصد کے حصول کیلئے ہم پربھارت کے فوجی ماہرین کو ترجیح دی‘جہاں تک بھارتیوں کا تعلق ہے وہ پریشان اس لئے ہیں کہ اگر افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان برسراقتدار آ گئے کہ جس کے قوی امکانات ہیں تو وہ پھر افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کر سکیں گے یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان کے ایک وسیع علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے جہاں موجودہ افغان حکومت کی رٹ سرے سے موجودہی نہیں گزشتہ تیس برسوں کے دوران طالبان نے رموز اور امور مملکت کے بارے میں یقینا بہت کچھ سیکھاہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ یہ تجربات اب کی دفعہ حکومت میں ان کے آ جانے کے بعد ان کے کافی کام آئیں گے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہو گا کہ امریکہ کا کبھی بھی افغانستان میں لمبے عرصے تک رہنے کا ارادہ نہ تھا ہر استعماری قوت شکست خوردگی کی حالت میں اپنا منہ دھونے اور خفت مٹانے کیلئے اسی قسم کے بیانات کا سہارا لیتی ہے سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے امریکہ اس وقت ہر افغانی کا دل جیت سکتا تھا کہ جب اس نے افغان مجاہدین کی عسکری امداد کر کے 1980 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان سے سوویت یونین کا بسترگول کروا دیا تھا اس وقت اگر وہ چپکے سے افغانستان کے معاملات میں سردمہری اختیار کرنے کی بجائے وہاں کے ٹوٹے پھوٹے فزیکل انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے اسی قسم کے کسی بڑے ترقیاتی منصوبے کا اعلان کر دیتا کہ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد تباہ شدہ یورپ کی بحالی کیلئے مارشل پلان کے نام سے ایک ترقیاتی پیکیج شروع کیا گیا تھا تو یقین مانئے وہ عام افغانیوں کے دل جیت لیتا اور ان حالات کی نوبت ہی نہ آتی کہ جو نائن الیون کے واقعات کا پیش خیمہ بنے۔یہ خبط عظمت نہیں تو پھر کیا ہے کہ اس وقت امریکہ چین اور روس دونوں کو نیچا دکھانے کیلئے ایسے عسکری نوعیت کے جال بن رہاہے کہ جو ان ممالک کیلئے اشتعال انگیز ہیں اور جن سے عالمی سطح پر امن ایک سنگین خطرے سے دوچارہو سکتا ہے چین کی بے مثال معاشی ترقی امریکہ کی آ نکھوں میں کھٹک رہی ہے اس سے یہ برداشت ہی نہیں ہو رہا کہ دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کسی اور ملک کا راج ہو۔ چین کو زک دینے کیلئے اور وسطی ایشیا کو اپنی دسترس میں کرنے کیلئے وہ چین کے ارد گرد رہنا چاہتا تھا اور اس پلان میں افغانستان میں بھی اس نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی کہ جو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا گو کہ امریکہ نے 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے اپنی فوجیں مکمل طور پر نکالنے کا عندیا دے دیا ہے پر کئی سیاسی مبصرین اس بیان کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا ء کی تاریخیں مقرر کیں جو بعد میں بدل دی گئیں یہی وجہ ہے کہ طالبان کو بھی سردست سو فیصد یقین نہیں کہ امریکی افواج افغانستان سے اس سال کے اواخر تک نکل جائیں گی طالبان کے کاندھوں پر اقتدار میں آنے کی صورت میں بہت بڑی ذمہ داری آ ن پڑے گی انہیں اپنے طرز عمل میں میانہ روی اختیار کرناہو گی اور کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی ہوگی کیونکہ اسی طرز عمل سے وہ اس خطے میں امن کو قائم رکھ سکیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہیں تاہم بھارت سمیت امریکہ نہیں چاہے گا کہ یہاں امن اور خوشحالی ہو اور پاکستان چین اقتصادی منصوبے تیزی کے ساتھ پروان چڑھ سکیں اسی لئے وہ مختلف صورتوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔