آج کل سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ انجام کار امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل دے دیا ہے اور یکم مئی سے افغانستان میں موجود امریکی افواج دھیرے دھیرے افغانستان چھوڑنا شروع کر دیں گی اور یہ عمل 11ستمبر 2021 تک مکمل ہو جائے گا ہماری یاداشت میں تین سپر پاورز نے مختلف ادوار میں افغانستان میں مداخلت کی اور منہ کی کھائی انیسویں صدی میں برطانیہ نے افغانستان کو مغلوب کرنے کی کوشش کی پر وہ ان کوششوں میں ناکام ثابت ہوا اس کے بعد سوویت یونین جیسی سپرپاور نے وہی غلطی دہرائی کہ جو برطانیہ سے ماضی میں سرزد ہوئی تھی امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر قبضہ جمانے کی سعی کی پر آج وہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ ایک مشہور برطانوی بریگیڈیئر نے بیسویں صدی کے اوائل میں چھپنے والی اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا کہ کوئی غیر ملکی فوج افغانستان اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے میں مداخلت کی کوشش نہ کرے کیونکہ کسی نہ کسی دن پھر اسے گولیوں کی بوچھاڑ کے نیچے وہاں سے پسپا ہو کر نکلنا پڑے گا اگر غلطی سے اس نے مداخلت کر ہی لی ہے تو وہ پہلے ہی سے اپنے فرار کا راستہ متعین کرلے۔غیر ملکی فوج کیلئے اس سے بڑھ کر ناکامی کی بات کیا ہوگی کہ جب وہ اپنے مشن میں ناکام ہوجاتی ہے اور وہاں سے نکلنے کی کوشش کر تی ہے تو سب سے پہلے اپنے لیے یہ کوشش کرتی ہے کہ ان کو فرار کا کوئی محفوظ رستہ فراہم کرے اگر سوویت یونین کے فوجی حکمران اور بعد میں امریکہ کے ارباب اختیار اس برطانوی بریگیڈیئر کی اس نصیحت پر عمل کرتے تو وہ کبھی بھی افغانستان میں عسکری مداخلت نہ کرتے اور پھر ناکام ہو کر وہاں سے اپنی افواج کو باہر نکالنے پر مجبور نہ ہوتے برطانیہ سوویت یونین اور امریکہ ان تینوں سپرپاورز نے افغانستان کو لقمہ تر سمجھا سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں کے اس ملک میں ان کی فوج کشی ان کی بڑی بھول تھی۔افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ء اگر ایک طرف بھارت کیلئے تشویش کا باعث بنے گا تو دوسری طرف افغانستان میں وہ سیاسی عناصر جو بھارت کے منظور نظر ہیں وہ بھی سخت پریشانی اور کرب میں مبتلا ہو جائیں گے ان کو یا تو طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی اور یا پھر وہ ان کے غیظ و غضب کا نشانہ بنیں گے۔ آج امریکی افغانستان کو چھوڑنے پر بالکل اسی طرح مجبور ہوگئے ہیں کہ جس طرح 1960 کی دہائی کے اواخر میں وہ شمالی ویت نام سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کا تقریبا 80 فیصد علاقہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طالبان کے زیر اثر ہے لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ جونہی امریکہ کا آخری فوجی افغانستان کی سرزمین سے نکلا تو فورا ً افغانستان بھر میں طالبان کی بھرپور شرکت سے حکومتکا وجود عمل میں آ جائے گا۔ جس طرح پاکستان کو افغانستان کی جانب سے سے وطن عزیز کے اندر امن عامہ کے قیام کیلئے خلوص دل سے تعاون درکار ہو گا بالکل اسی طرح افغانستان بھی یہ چاہے گا کہ پاکستان بھی ان کا افغانستان کے اندر امن عامہ یقینی بنانے کیلئے اس کا ہاتھ بٹانے چناچہ وزارت خارجہ کو ابھی سے افغانستان کے بارے میں ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے جس پر روز اوّل سے ہی عمل پیرا ہوکر اسلام آباد اور کابل کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔