اس ملک میں منصفانہ ٹیکسیشن سسٹم نافذ کیا ہی نہیں جاسکتا کہ جب تک ملک کی اکانومی کو مکمل طور پر دستاویزی نہ بنا دیا جائے اس ملک کے کئی بااثر طبقے کما زیادہ رہے ہیں پر ہر سال انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو اپنی آمدنی کے جو گوشوارے جمع کراتے ہیں ان میں وہ اپنی اصلی کمائی کو ڈکلیئر نہیں کر رہے بلکہ اس سے کئی گنا کم آمدنی درج کر رہے ہیں اس لیے اس ملک کا کوئی شخص بھی حکومت کو حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس ادا نہیں کر رہا ہم نے تو آج تک نہیں دیکھا کہ کسی بھی حکومت نے اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہو اور ملک کی اکانومی کو دستاویزی بنانے کےلئے کوئی ٹھوس کاروائی کی ہو ہر حکمران نے پریشر گروپس سے پنگا لینے کے بجائے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ بس کسی نہ کسی طریقے سے سے اقتدار میں اپنی آئینی مدت پوری کر لی جائے انھوں نے بس اپنے اقتدار کے بارے میںہی سوچا اور ملک کے بارے میں دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا پریشر گروپس پر ٹیکس لگانا یقینا ایک غیر مقبول اقدام ہے اور کوئی بھی حکومت غیر مقبول اقدام اٹھانا پسند نہیں کرتی ‘جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام حکومت قائم ہے وہاں پر حکمرانوں نے سرمایہ داروں کو بالکل کھلی چھٹی نہیں دے رکھی کہ وہ جس طریقے سے چاہیں بزنس کریں ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے وہاں کے حکمرانوں نے مسابقتی کمیشن کی شکل میں ایک سرکاری ادارہ بنا رکھا ہے کہ جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صنعت کار آپس میں گٹھ جوڑ بنا کر کہیں مناپلی اور کارٹیل کے ذریعے عوام کا معاشی استحصال نہ شروع کر دیں پاکستان میں بھی ایک مسابقتی کمیشن موجود ہے پر اس کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات موجود ہیں۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں4 کے قریب وزرائے خزانہ بدلے جا چکے ہیں بالفاظ دیگر ہر وزیر خزانہ نے اوسطا تقریبا چھ سات مہینے ہی کام کیا ہے یہ اتنا چھوٹا عرصہ ہے کہ اس میں کوئی بھی وزیر خزانہ ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ۔اس حقیقت کے باوجود کہ کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کےلئے حکومت وقت نے اب تک جو پالیسی اپنائی ہے وہ بڑی حقیقت پسندانہ ہے پر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کورونا ویکسینیشن میں پاکستان بنگلہ دیش راونڈا گھانا اور نائجیریا سے بھی پیچھے ہے دنیا کے 123 ممالک میں پاکستان کا 120واں نمبر ہے اور لگتا یوں ہے کہ پوری آبادی کو ویکسین لگانے میں کئی برس لگیں گے ۔