شنید ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے تمام ڈاکٹروں کو ادویات کے برانڈ نام روکنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں ڈاکٹروں کو مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی مریض کو نسخے میں دوائی کا نام اور برانڈ لکھ کر نہ دیں وہ نسخے میں صرف دوا کا فارمولا لکھیں گے اسی قسم کا ایک حکم اس وقت بھی دیا گیا تھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے وزیر اعظم تھے اور بابائے سوشلزم مرحوم شیخ رشید ان کی کابینہ میں وزیر صحت تھے‘ واقفان حال کا کہنا ہے کہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کا بھی آپس میں گٹھ جوڑ ہے جو کسی مافیا سے کم نہیں اسی نے بھٹو صاحب کی یہ سکیم فیل کروا دی تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض ڈاکٹر حضرات بھی جینرک نام کے بجائے برانڈ نام کی دوائیاں تجویز کرنے کے حق میں ہیں کیونکہ اس کے بدلے میں فارما سوٹیکل کمپنیاں ان کو کافی مالی مراعات فراہم کرتی ہیں واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ جینرک نام سے اگر ڈاکٹر کسی مریض کو دوائی تجویز کرے تو وہ اسے کافی کم قیمت میں پڑتی ہے جہاں تک دوائی کے معیار کا تعلق ہے ماہرین کے مطابق جینرک نام کے تحت بیچنے والی ادویات اور برانڈ نام کے تحت فروخت کرنے والی دوائیوں میں کوئی بھی فرق نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اس حکم پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا اس کا انجام بھی اسی طرح کا ہو گا کہ جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا تھا اس ملک میں جینرک نام کے تحت دوائیاں فروخت کرنے والوں کے حق میں بات کرنے والوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور جو لوگ برانڈ نام کے تحت دوائیاں فروخت کرنے کے حق میں ہیں ان کے پاس بھی کافی دلائل موجود ہیں اس موضوع پر متعلقہ حلقوں میں ایک سیر حاصل بحث کرنا ضروری ہے بلکہ اس معاملہ کو پارلیمنٹ کے فلور پر بھی اٹھایا جائے اور ان دونوں مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اور ماہرین کو سننے کے بعد ایک ایسا فیصلہ کیا جائے کہ جو متنازع نہ ہو اور اس ملک کے عام آدمی کے مفاد میں ہو۔اب ذرا تھوڑا سا ذکر بین الاقوامی امور کا بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں یہ بات تو طے ہے کہ آج امریکہ پاکستان کو اپنا قریبی اتحادی نہیں سمجھتا امریکا چین کے خلاف جو محاذ آرائی کر رہا ہے اس صورتحال میں پاکستان کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی کہ وہ امریکہ کا ساتھ دے گا۔ کیا وہ واشنگٹن سے پہلے والی توقعات موجودہ صورتحال کے پیش نظر رکھے گا۔روس کو آج پاکستان کی ضرورت ہے وہ ماضی کو بھلا کر پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے یہ جو روسی وزیر خارجہ نے حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کیاہے وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس موضوع پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کے بعدخارجہ پالیسی مرتب کی جائے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان یہ کوشش کرے کہ پاکستان کے بارے میں روس کے دل میں جو بد گمانیاں ہیں انہیں دور کیا جائے اگرہم امریکہ کی دوستیمیں ماسکو کے خلاف ایک لمبے عرصے تک مخاصمت کی پالیسی نہ رکھتے تو ہم وہ نقصانات کبھی نہ اٹھاتے جو ہم نے 1950 سے لے کر 1990 تک اٹھائے آج خوشی کی بات یہ ہے کہ روس اور چین دونوں سیاسی لحاظ سے ایک ہی پیج پر ہیں۔ چین کے ساتھ تو ہم لازوال دوستی کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں اب ہم روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔