جوش کی جگہ ہوش ضروری ہے 

 ہم سے آ یا نہ گیا تم سے بلایا نہ گیا فاصلہ پیار کا دونوں سے مٹایا نہ گیا کے مصداق کچھ اسی قسم صورت حال گزشتہ 29 مئی کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی زیر صدارت منعقد ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاس میں دیکھنے کو ملی نہ پی پی پی اور اے این پی کو اس میں شرکت کیلئے بلایا گیا اور نہ وہ آ ئے بلکہ مریم نواز کی باتوں سے تو یہ عندیہ ملا کہ یہ دو پارٹیاں اب پی ڈی ایم کیلئے جیسے قصہ پارینہ ہو چکی ہوں گو کئی سیاسی مبصرین کو اب بھی یہ گمان ہے کہ چونکہ مولانا فضل الرحمان صاحب اور زرداری صاحب کے آ پس میں ایک لمبے عرصے سے تعلقات ہیں اس لئے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم میں موجودہ دوریاں مٹ جائیں 29 مئی کوہونے والی پی ڈی ایم کی بیٹھک کے بعد مولانا صاحب نے میڈیا کو جو فیصلے سنائے ان سے یقیناً حکومت وقت کے درد سر میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہوئی ہو گی۔لانگ مارچ حکومت گرانے یا آ ر پار قسم کی دھمکیاں اب کی دفعہ سننے میں نہیں آ ئیں مولانا فضل الرحمان صاحب کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا لگ یہ رہا ہے کہ اب آئندہ عام انتخابات تک جو بات بھی ہو گی وہ پارلیمنٹ کے اندرہی ہو گی گو کبھی کبھار اپوزیشن والے خبروں میں رہنے کیلئے جلسے کرتے رہیں گے تاکہ سیاسی تندور بالکل ٹھنڈا نہ پڑ جائے یہ ایک اچھی سیاسی پیش رفت ہے اور اس ہر حکومت نے یقینا سکھ کا سانس لیا ہوگا پی ڈی ایم کو لگتا ہے یہ احساس ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں الیکشن توہونے سے رہے کیونکہ جب تک کورونا ہماری جان نہیں چھوڑتی الیکشن کا انعقاد نا ممکن نظر آ تا ہے اور اب 2023 میں ہی جا کر بات بنے گی 2023 بھی اب کوئی زیادہ دور نہیں کہ جب موجودہ حکومت کی اقتدار میں آئینی مدت پوری ہو جائے گی پی ڈی ایم نے صحیح سوچا ہے کہ کیوں نہ تب تک کے عرصے کو نئے الیکشن کی تیاری میں صرف کر لیا جائے۔ پی ڈی ایم کا یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ افغانستان کے معاملات پر پارلیمنٹ میں ایک سیر حاصل بحث کی جائے اور یہ کہ امریکہ کو کسی حال میں بھی پاکستان کے اندر کوی فوجی اڈہ فراہم نہ کیا جائے۔ کاش کہ وزیراعظم صاحب اپنے وعدے کے مطابق اگر ہر ہفتے باقاعدگی سے سوالات کے بذات خود جوابات دینے کیلئے روز اول سے ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہر ہفتے اگر ایک بار بھی شرکت کرتے تو آج پارلیمنٹ کی فضا ہی کچھ اورہوتی اور بجٹ پاس کرانے کیلئے حکومت کو کسی پریشانی کا سامناہی نہ کرناپڑتا ہماری دانست میں الیکٹرانک ووٹنگ کے بارے میں پی ڈی ایم کے جو تحفظات ہیں وہ سو فیصد درست قرار نہیں دئیے جاسکتے اس معاملے میں اسے کوئی بھی فیصلہ عجلت میں کرنے کی بجائے الیکٹرانک مشین کے خدوخال اور دیگر ممالک میں کہ جہاں اس کا استعمال کیا جائے جا رہا ہے اس کے نتائج کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ دینا چاہئے۔ آج دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے بڑھ چکی ہے اور اس سے زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن کو کافی حد تک ختم کیا جا چکا ہے۔ اس نظام کی ایک جامع سٹڈی ضروری ہے جس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں الیکشن کمیشن‘ اپوزیشن‘ انفارمشن ٹیکنالوجی کے ماہرین‘ صحافی اور حکومتی پارٹی کے دو دو ارکان شامل ہوں اسے دو ماہ کا عرصہ دیا جائے کہ جس میں یہ اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لے اور ایک آدھ اس ملک کا دورہ بھی کرے کہ جہاں اس مشین کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا ہے اور پھر اس کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کوئی مناسب فیصلہ کیا جائے الیکٹورل اصلاحات یقینا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہئے الیکشن کسی بھی ملک میں حقیقی جمہوریت کا نظام نافذ کرنے کیلئے خشت اول کے مترادف ہوتے ہیں اس ملک کو ایسے انتخابی سسٹم کی ضرورت ہے کہ جس میں دھاندلی کے ذریعے کوئی بھی فرد پارلیمان کا ممبر نہ بن سکے اس ملک کا المیہ ہی یہی ہے کہ اس کی پارلیمنٹ میں عوام الناس کے حقیقی نمائندے الیکشن میں منتخب ہوکر نہیں آرہے لہٰذا اب تک عوام کے بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں اب تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو بھی بات چیت ہورہی ہے وہ سرسری نوعیت کی ہے اور غیر سنجیدگی کے زمرے میں آ تی ہے۔