خوش فہمی۔۔۔۔۔۔

امریکہ افغانستان کے اندر رہ کر اگر وہاں کے حالات پر کنٹرول نہیں کر سکا تو وہ اس خطے میں کسی اور جگہ اپنی موجودگی سے افغانستان کو  ریموٹ کنٹرول سے خاک قابو میں رکھ سکے گا؟ اس لئے افغانستان سے انخلا ء کے بعد اس خطے میں کسی اور ملک میں اپنی موجودگی قائم رکھنا عاقبت نااندیشی نہیں تو پھر کیا ہے افسوس کہ کوئی بھی ملک تاریخ سے سبق نہیں لیتا  ہم ماضی بعید میں نہیں جاتے ماضی قریب کی ہی بات کر لیتے ہیں ہماری نسل نے فرنگیوں‘ سوویت یونین  اور اس کے بعد امریکہ کو افغانستان میں ملیامیٹ ہوتے دیکھا۔  امریکہ کی یہ خام خیالی ہے کہ وہخطے میں کسی اور ملک کی سرزمین  پر اپنا وجود کسی نہ کسی طریقے سے قائم رکھ کر افغانستان کو کنٹرول کر سکے گا اس قسم کی چہ میگوئیوں نے ابھی تک دم نہیں توڑا کہ خطے کے ممالک پر امریکی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے فوجی اڈے فراہم کریں، پاکستان کی طرف سے صاف انکار کیا گیا ہے۔البتہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ 2001 میں جنرل مشرف نے امریکہ کو من چاہی  رعایت دی تھی جس کے تحت امریکہ ہماری ہوائی اور زمینی سرحدوں کو افغانستان  میں عسکری کاروائی کیلئے استعمال کیا کرتا تھاجس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔سی پیک کے بارے میں بھی امریکہ کے ارادے کچھ اچھے نہیں وہ اس خطے میں چین کے آس پاس رہ کر اس پر جاسوسی کرنا چاہتا ہے اسی طرح امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاو کسی بہتری کا پیش خیمہ نہیں ہے  اس قسم کے ہوائی اڈوں سے افغانستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک بھی امریکہ کی زد میں ہوں گے۔ یہ بات کم ازکم ہماری سمجھ سے تو باہر ہے کہ افغانستان سے اگر امریکہ اپنی تمام افواج باہر نکال لے گا تو اشرف غنی صاحب اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان کا کیا حشر ہوگا کیونکہ شنید یہ ہے کہ امریکہ نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان میں جو نیشنل آ رمی بنائی تھی اس کے اکثر جوان دھڑا دھڑ طالبان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اگر ان میں کوئی فوجی گھر جانا چاہتا ہے تو طالبان پانچ ہزار افغانی بطور زادِراہ دے کر اسے رخصت کرتے ہیں جو فوجی طالبان کے سامنے سرنڈر ہو رہے ہیں وہ وہ بمعہ اپنے اسلحہ کے سرنڈر ہو رہے ہیں یہ فوجی جوان عموما طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک طالبان اپنے وطن کو غیر ملک کے تسلط سے آزاد کرانے کی جائز جنگ لڑ رہے ہیں غالب امکان یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا ء کے بعد  کابل میں اور افغانستان کے بڑے علاقے پر طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی واقفان حال کا کہنا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربوں سے طالبان نے بہت کچھ سیکھا  ہے اور اب کی دفعہ اگر وہ اقتدار میں آتے  ہیں تو ان کے طور طریقے اس دور حکومت سے کافی مختلف ہوں گے کہ جو ماضی میں اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اپنائے تھے۔ آج افغانستان میں جو زمینی حقائق  ہیں ان کے تناظر میں اشرف غنی کی یہ بات بڑی تعجب خیز لگتی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ان کی حکومت اپنی انتظامیہ اور افواج کے بل بوتے پر اپنے ملک کو بہتر انداز میں چلا سکتی ہے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو پر ہمیں تو یہ اشرف غنی صاحب کی خوش فہمی نظر آتی ہے۔ بہرحال افغانستان میں امن کا قیام اس وقت پورے خطے کے لئے اہم ہے اور اس معاملے میں تمام فریقین  کو آپس میں تعاون کرنا چاہیے۔