نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ۔۔۔۔۔۔۔

ایک مرتبہ پھر اقتدارِ کے ایوانوں،سیاسی حلقوں،پبلک فورمز اور میڈیا میں ملک میں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو عناصر یہ مطالبہ کر رہے ہیں ان کے نزدیک ملک میں نافذ نظام حکومت نہ تو عام آدمی کے غموں دکھوں کا مداوا کر سکا ہے اور نہ ہی اس کی بنیادی ضروریات پوری کر سکا ہے اور نہ ہی اس کے مال و جان کی مناسب حفاظت اس مطالبہ کا اگر بغیر کسی قسم کے تعصب کے بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کافی وزن پایا جاتا ہی ابتداے آ فرینش سے لے کر آج تک اگر دنیا کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں مختلف ادوار میں طرح طرح کے نظام ہائے حکومت اپنائے گئے جن میں بادشاہت کا نظام بھی شامل ہے عسکری آ مریت بھی اور جمہوری نظام کی ایک سے زیادہ اشکال بھی۔ وطن عزیز نے کہنے کو تو پارلیمانی جمہوریت کا نظام بھی اپنایا اور صدارتی نظام بھی۔ پر حقیقت میں یہ دونوں بناسپتی قسم کے تھے اور ان کے ضروری تقاضے پورے کئے بغیر انہیں نافذ کیا گیا جس سے ظاہر ہے ان سے مطلوبہ نتائج پھر کیسے برآمدہو سکتے تھے 1951 سے لے کر 1958 تک اورپھر وقتا ًفوقتاً 1970 سے تا دم تحریر وقفوں وقفوں سے اس ملک کو جن نظاموں کے تحت چلایا گیا وہ لیبل یا نام کی حد تک تو پارلیمانی یا صدارتی تھے پر عملا وہ ایسے بالکل نہ تھے مثلا 1951 اور 1958 کے درمیان بظاہر تو اس ملک میں پارلیمانی نظام تھا پر اسے پارلیمانی نظام کہنا پارلیمانی نظام کی توہین تھی ایوب خان کے نظام حکومت کو صدارتی جمہوریت کہنا بھی کئی لحاظ سے غلط ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد کر صدارتی انتخابات کرواتے انہوں نے بنیادی جمہوریتوں کے صرف اسی ہزار نمائندوں کو الیکٹورل کالج بنا کر صدر منتخب ہونا چاہا۔اسی طرح ضیاء الحق اور مشرف نے کنٹرولڈ ڈیموکریسی سے یہ ملک چلایا ان کے بعد جو حکمران بھی ہمیں نصیب ہوئے ان کی کارکردگی آ پ کے سامنے ہے اس پر مزید لکھنا قرطاس کا ضیاع ہو گا افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ کہنے کو تو اس ملک میں تمام ریاستی ادارے موجودہیں کہ جن کا وجود آج کی پارلیمانی جمہوریت چلانے کیلئے ضروری ہوتا ہے پر وہ کاغذات کی حد تک ہی موجود ہیں۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان میں کوئی بھی اپنے فرائض منصبی کما حقہ پورے نہیں کر رہا اور یہی وجہ کہ وطن عزیز میں گڈ گورننس کا فقدان ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ہو کہ صدارتی نظام جمہوریت سب سے پہلے تو ضروری یہ ہوتا ہے کہ ملک میں ایک ایسا الیکٹورل سسٹم ہو کہ جس کے ذریعے ملک میں ایک مناسب وقفے کے بعد صاف اور شفاف انتخابات کرانے جائیں پر اس سے بھی پہلے ایسے قوانین وضع کئے جائیں اور پھر ان پر عملدرآمد بھی ہو کہ ہر سیاسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوں اور ان میں موروثی سیاست کا قلع قمع کیا جائے عوام کو بتایا جائے کہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کون کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ پھر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے عملے کی سلیکشن میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ رہے ہوں اور اچھی شہرت کے مالک ہوں ریٹرنگ آفیسرز کے انتخاب میں بھی نہایت احتیاط کا برتنا ضروری ہے۔پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے مقابلہ معاشرے کے بہترین افراد میں ہونا چاہے نہ کہ مشکوک شہرت والے لوگوں کے درمیان۔اگر ایک مرتبہ دیانت دار قسم کے افراد بر سر اقتدار آ جاتے ہیں تو پھر وہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات اٹھا سکتے ہیں کہ ہر ریاستی ادارے میں بھلے وہ عدلیہ ہو انتظامیہ ہو یا کوئی اور ادارہ ہو ان میں بالغ نظر اچھی شہرت رکھنے والے افراد ہر مشتمل ورک فورس منتخب کر سکیں کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ہم میں بحیثیت قوم اخلاقیات کا فقدان ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے اثرات نظر آتے ہیں جہاں تک سیاسی رویوں کا تعلق ہے تو یہاں پر عدم برداشت کا دور دورہ ہے اور صبر و تحمل کا فقدان ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اصلاحات کا عمل جہاں دیگر شعبوں میں اہم ہے وہاں پر سیاست میں بھی اس کا تجربہ ضروری ہے خاص کر ایسے حالات میں کہ جب ملک میں بحرانی کیفیت ہے اور حکومت و حزب اختلاف ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔