یادوں کے سلسلے۔۔۔۔۔

یہ ایک طے شدہ مسلمہ اصول ہے کہ جب بھی امن عامہ کا نفاذ قائم رکھنے والے ادارے کسی خطرناک عادی قسم کے ڈاکو کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو اس کو ہمیشہ سرپرائز دیتے ہیں پہلے سے ڈھنڈورا نہیں پیٹتے کہ وہ اسے پکڑنے آرہے ہیں ورنہ اسے فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔سندھ میں آج کل پولیس اسی قسم کا کھیل ڈاکوؤں کے ساتھ کھیل رہی ہے کیوں کے اس نے سندھ کے اندرونی علاقے میں آپریشن کلین اپ سے پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹ دیا تھا کہ وہ ان کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جس کی وجہ سے کئی ڈاکوؤں کو فرار ہونے کا موقع ملا۔ دوسری جانب انجام کار پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے برصغیر فلم انڈسٹری کے دو عظیم اداکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھروں کو حکومت کے نام منتقل کر دیاگیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پشاور نے ان گھروں کے موجودہ مالکان کے اعتراضات مسترد کر کے دونوں گھروں کا قبضہ حاصل کر لیا ہے اب اگلے مرحلے میں ان گھروں کو بحال کر کے عجائب گھر میں تبدیل کیا جائے گا۔اس ضمن میں پہل اے این پی کی صوبائی حکومت نے کی تھی جس نے سب سے پہلے عوامی حلقوں کی خواہشات کے مطابق ان گھروں کو قومی ورثہ قرار دیا اور اس سلسلے میں ابتدائی ہوم ورک کیا ان گھروں کے موجودہ قابضین نے جب یہ بھانپا کہ حکومت ہر صورت میں انہیں خریدنا چاہتی ہے تو ان کے منہ میں پانی بھر آ یا اور انہوں نے ان گھروں کو خالی کرنے کے عوض بھاری رقوم کا مطالبہ کیا جو کسی صورت بھی جائز بات نہ تھی یہ معاملہ ایک عرصے سے کھٹائی میں پڑا ہوا تھا اور ایک مرحلے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سکیم کہیں ڈراپ ہی نہ ہو جائے جن دو اداکاروں نے ان گھروں میں آ نکھ کھولی انہوں نے برصغیر کی فلم انڈسٹری کو اپنی اداکاری کے جوہر سے چارچاند لگائے دلیپ کمار کو اگر بجا طور ہر کنگ آف ٹریجڈی کہا گیا تو راج کپور کو شومین کے نام سے یاد کیا گیا اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ دونوں اداکار برصغیر کے اداکاروں کی تین نسلوں کیلئے رول ماڈل ثابت ہوئے برصغیر کی گزشتہ سو سال کی تاریخ میں پھر دلیپ کمار جیسا اداکار نہیں پیداہوا۔حکومت کو اب چاہئے کہ ان دونوں گھروں کو ان کی ا صلی حالتمیں بحال کر کے برصغیر کے ان دو فنکاروں کے کروڑوں شیدائیوں کو ٹکٹ کے ذریعے ان کی سیر کی اجازت بھی د ے۔اس سلسلے میں سرکاری سطح پران دونوں اداکاروں کے رشتہ داروں سے رابطے کے بعد ان سے وابستہ ہر قسم کی نشانیوں کو ان گھروں میں شو کیسز میں محفوظ کیا جائے کہ جس طرح کسی میوزیم میں کیا جاتا ہے۔مندرجہ بالا دو گھر نہایت ہی خستہ حالت میں ہیں خصوصاً دلیپ کمار کا گھر تو بالکل ہی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اچھا ہوا کہ ان کو حکومت نے اپنی نگرانی میں سنبھال لیا کم از کم ان کو ان کی اصل حالت میں اب بھی بحال تو کیا جا سکے گا۔جس طرح کہ علامہ اقبال نے کہا ہے ”ذرا سا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘خیبر پختونخوا نے زندگی کے ہر میدان میں ایسے افراد پیدا کئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے پیشے میں دنیا میں بڑا نام کمایا ہے فنون لطیفہ میں پطرس بخاری‘براڈکاسٹنگ میں زیڈ اے بخاری‘ مصوری اور سنگتراشی میں گل جی‘ ہاکی میں لالہ ایوب‘ فلم اداکاری میں خاموش فلموں کے ہیرو گل حمید‘گلوکاری میں جی ایم درانی‘ سکواش میں نواں کلی کے خان براداران وغیرہ ان سب سے متعلق یاداشتوں اور نشانیوں کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔