ایک اور پریشانی کا خطرہ۔۔۔۔۔

 افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا مرحلہ تیزی سے طے ہور ہا ہے اوراب وہ شاید گیارہ ستمبر کے بجاے 4 جولائی تک ہی ہو جائے کہ جو امریکہ کا قومی دن ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس کے بعد افغانستان میں موجودہ حکمرانوں کو اپنا اقتدار سنبھالنا کافی مشکل ہو جائے گا۔افغانستان کا قریبی پڑوسی ملک ہونے کے ناطے وہاں کے مسائل سے براہ راست پاکستان متاثر ہوتا آیا ہے۔ وطن عزیز کے تمام محب وطن عناصر آج کل کافی تشویش میں ہیں کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج جا تو رہی ہیں پر وہ اپنے پیچھے ایک بہت بڑا سیاسی خلا چھوڑے جا رہی ہیں اس وقت کوئی بھی ملک یا کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ اس بات کا ضامن نہیں کہ کل کلاں کیا ہو گا کیا افغانستان کے اندر موجود متحارب گروپس آپس میں پھر لڑنے مرنے کیلئے کمر بستہ ہو جائیں گے کیا ان کے آ پس میں نفاق سے ملک ایک بار پھر بدامنی کی اس لہر سے دوچار ہوجائیگا جس کا سامنا روس افواج کے نکلنے کے بعد اس ملک کو ہوا تھا۔اس خطے کا جغرافیائی محل وقوع کچھ ایسا ہے کہ اگر افغانستان کو چھینک آجائے تو پاکستان کو زکام لگ جاتا ہے خدانخواستہ اگر افغانستان میں پھر خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور افغانیوں کی ایک کثیر تعداد اپنی جان بچانے کیلئے پاکستان کا رخ کرتی ہے تو کیا ہم انہیں اپنے وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر جگہ دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ جس کے بارے میں ابھی سے ہی ہمارے ارباب بست و کشاد کو نہایت سوچ سمجھ کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنانی ہو گی اس مسئلے پر فورا سے پیشتر پارلیمنٹ میں ایک سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہاں پر افغان مہاجرین کے آنے سے جو مسائل پیدا ہوئے ان سے ابھی تک مکمل چھٹکارا نہیں پا جا سکا ہے۔ معاشی بوجھ جو ان کے آنے سے پڑا ہے اس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے۔ جہاں تک بد امنی کی لہر کا تعلق ہے تو اس پر پاک فوج نے بڑی قربانیاں دے کر قابو پایا ہے اور افغانستان میں حالات خراب ہونے کے ساتھ ایک بار پھر خدشہ ہے کہ یہاں پر امن و امان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ اب بھی اکا دکا واقعات ہونے لگے ہیں۔ افغان مسئلے کے تناظر میں بد امنی سے ہزاروں سویلین اور فوجی جوان دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اب ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے خدانخواستہ اگر امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پھر اسی قسم کے حالات جنم لیتے ہیں تو مہاجرین کی ایک اور لہر کا سامنا کرنے کیلئے ہمیں پہلے سے تیاری کرنی ہوگی اور جس طرح غیر منظم انداز میں ان کو ملک بھر میں بسایا گیا تھا اس کے برعکس خصوصی انتظامی علاقوں میں ان کو رکھنے کی پالیسی جس طرح اور ممالک نے اپنائی تھی اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے امن ا مان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔یہ بہت اچھی پیش رفت ہے کہ پاک افغان بارڈ پر باڑ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور زیادہ تر کام مکمل ہوچکا ہے۔مخصوص مقامات سے ہی آنے جانے کی اجازت دینا اور وہ بھی مکمل کاغذی کاروائی کے بعد بہترین پالیسی ہے جس پر سختی کے ساتھ کاربند رہنا ہوگا۔اس وقت جو حالات خطے میں سامنے آرہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور چین کو اس حوالے سے زیادہ اہم ذمہ داری اٹھانی ہوگی کیونکہ اس نے خطے میں جو ترقیاتی منصوبے اور معاشی ترقی کی پلاننگ کی ہے اس کو کامیاب بنانے کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے کیونکہ سی پیک ہے یا چین کے دوسرے معاشی منصوبے ان کا تعلق خطے میں پائیدار امن سے ہے اور افغانستان وہ ملک ہے جہاں پر امن و امان قائم ہونے سے تمام پڑوسی ممالک میں ترقی کا سفر تیز ہو سکتا ہے پاکستان نے پہلے بھی افغانستان میں امن کے قیام کے لئے سرتوڑ کوششیں کی ہیں اور اس مقصد کے لئے قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا اور اب ایک بار پھر مشکل حالات میں پاکستان پر زیادہ بوجھ پڑ سکتا ہے جس کے لئے تیاری ضروری ہے۔