شفقت بھرا دل۔۔۔۔۔

ہم اگلے دن سفر کررہے تھے تو میں اپنے بچپن کے بارے میں سوچ رہا تھا، جب میں پانچ چھ برس کا تھا، اس وقت میری ماں نے اپنی سہیلیوں کی دعوت کی تھی، یہ غالباً 1930ء کی بات ہے، میری ماں نے اپنی سہیلیوں کے لئے مراد آباد کے برتنوں میں کھانا لگایا، پھول وغیرہ بھی لگائے، جب میں نے اپنی ماں کا اتنا اہتمام دیکھا تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس میں حصہ بٹانا چاہئے، میرے پاس ایک طوطا تھا جس طرح کا سڑکوں پر نجومیوں نے کارڈ نکالنے کیلئے رکھا ہوتا ہے، اس کا رنگ اصلی طوطے کا تھا لیکن وہ گتے کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر لکڑی کا برادہ بھرا ہوا تھا، وہ طوطا دو آنے کا ملتا تھا اور اس کے ساتھ ربڑ کا دھاگہ بندھا ہوا ہوتا تھا، میں نے وہ طوطا لاکر وہاں رکھ دیا جہاں ماں نے تزئین وآرائش کی ہوئی تھی اور جہاں کھانے کاانتظام تھا، اگر شاید آج کی سمجھدار ماں ہوتی تو اس بھدے سے طوطے کو اٹھا کر پھینک دیتی اور کہتی کہ تم کیا بدتمیزی کررہے ہو لیکن وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی، وہ صرف ماں تھی اسے مامتا کے سوا اور کچھ نہیں آتا تھا، اس نے ایک رکابی کو اوندھا کرکے اس کے اوپر طوطا رکھ دیا اور جب ان کی سہیلیاں آئیں تو وہ انہیں بتانے لگیں کہ بھئی یہ طوطا اشفاق کا ہے جو اس نے خوبصورتی میں اضافہ کرنے کیلئے رکھا ہواہے، ان کی سہیلیوں نے بھی اس کی تعریف کی، اتنے برس گزر جانے کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ وہ Gracious Heartedشفیق دل ان لوگوں کو کیسے مل جاتے تھے، میری یہ بڑی حسرت ہے کہ ایسا دل چاہے چند روز کیلئے ہی سہی مجھے بھی مل جائے۔ جب میں اٹلی میں تھا تو میرے ایک دوست بالدی کا بھتیجا تھا اور اسکا ایک پیچیدہ سا آپریشن تھا‘ اسے ہم ہسپتال لے گئے‘ میرے ان کیساتھ گہرے تعلقات تھے‘وہ لڑکا بھی کہنے لگا کہ یہ بھی ساتھ جائیں‘ اس لڑکے کے پاس ایک بھالو تھا وہ اس نے ساتھ پکڑاہوا تھا‘ اسکا باپ کہنے لگا کہ یہ اس بھالو کو چھوڑتا نہیں ہے‘ میں کسی طریقے سے اس کو اس سے الگ کرتا ہوں‘ وہ کوشش کرتا رہا لیکن اس نے اسے نہ چھوڑا‘ خواتین وحضرات اس لڑکے کا بھالو کانا تھا‘ ایک آنکھ کا بٹن کہیں گر گیا ہوگا‘ جب اسکو آپریشن کیلئے لٹایاگیا تو نرس نے اس سے کہا کہ یہ بھالو مجھے دیدو لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا‘ اب ڈاکٹربھی پریشان تھاجس نے اسے بے ہوشی کی دوا دینی تھی اور اس کے بعد سرجن نے آنا تھا‘ ہم سب پریشان کھڑے تھے کہ سرجن آگیا‘ اس نے دیکھتے ہی صورتحال کو بھانپ لیا اور کہا کہ اچھا اتنا خوبصورت بھالو بھی ہے‘ نرس نے کہا کہ سر یہ اس بھالو کو چھوڑ نہیں رہا ہے تو سرجن نے کہا کہ نہیں نہیں یہ اس کیساتھ ہی رہے گا‘ ابھی تو اس بھالو کی آنکھ کا آپریشن بھی ہونا ہے‘ یہ سن کر اس لڑکے کا دل خوشی سے معمور ہوگیا‘ جب اس لڑکے کاآپریشن جاری تھا تو ایک شخص کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اس بھالو کی جو ایک آنکھ نہیں ہے اسے ابھی بازار سے لگوایاجائے‘(یہ معمولی باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں)ایک طرف اس بچے کاآپریشن ہوتا رہا تو دوسری طرف اس کے بھالو کی آنکھ ڈلوائی گئی اور بچے کے ہوش میں آنے سے پہلے اسے وہیں رکھ دیاگیا جہاں سے اٹھوایا تھا اور اس نئی آنکھ پر ایک خوبصورت پٹی بھی باندھ دی گئی‘ وہ اس خوبصورتی سے باندھی گئی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی Livingانسان کو بندھی ہوئی نہیں دیکھی‘ جب وہ بچہ ہوش میں آیا تو اس پٹی کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اس بھالو کو کیا کیا ہے؟ اسے پٹی کیوں بندھی ہے؟ وہ سٹاف کہنے لگا کہ اس کی آنکھ کا آپریشن کیا ہے جو کامیاب ہوا ہے‘ اس پٹی کو دو دن نہیں کھولناوہ خوش خوش بھالو کو لے کر چلاگیا‘اس سرجن کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی ہے‘ اس کا لمبا سا قد تھا اور اس کے اندر شفقت ایسی بھری ہوئی تھی جو کہیں سے ملتی ہی نہیں ہے۔ (اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)