افغانستان کو حمداللہ محب جیسے دوستوں کی موجودگی میں کسی دشمن کی قطعا ًضرورت نہیں موصوف افغانستان کی وزارت خارجہ میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیسے اہم منصب پر فائز ہیں انہوں نے پاکستان کے بارے میں حال ہی میں ایک نہایت ہی ناشائستہ لفظ استعمال کیا ہے کہ جسے دہرانے میں ہماری زبان لڑکھڑاتی ہے اور لکھنے سے ہاتھ کانپتا ہے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ اس بیان کو پڑھنے کے بعد کسی پاکستانی کا دل یہ نہیں چاہے گا کہ وہ حمداللہ محب کے ساتھ ہاتھ ملائے سفارت کاری جیسے نازک اور حساس معاملاتِ دیکھنے والے سرکاری افراد کو اپنی زبان پر کافی کنٹرول رکھناچاہئے اور کوئی بھی بیان دینے سے پہلے دو مرتبہ سوچنا چاہئے کہ اس سے ان کے ملک کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ہم تو حمد اللہ محب صاحب کا مندرجہ بالا بیان پڑھنے کے بعد صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ لگتا ہے ان کی پرائمری ایجوکیشن اچھی نہیں ہوئی یہ بات یقینا افسوسناک ہے کہ تا دم تحریر حمد اللہ محب کے کے مندرجہ بالا بیان کی شاہ محمود قریشی صاحب کے علاوہ کسی اور سیاسی پارٹی کے کسی اورلیڈر نے کھل کر مذمت نہیں کی پاکستان اور افغانستان کئی حوالوں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے انیس سو سینتالیس سے لے کر اب تک افغانستان کی مشکلات میں اگر اس کا ساتھ دیا ہے تو یہ ہمارا فرض تھا اور ہم اس ضمن میں اس پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے پر یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انیس سو سینتالیس سے لے کر اب تک افغانستان نے ہمارے مقابلے میں بھارت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ کیوں رکھا ہے کہ جب اسے اچھی طرح پتا ہے کہ بھارت پاکستان کے قیام کے روز اول سے ہی اس کی بیخوں میں پانی دے رہاہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر پیوٹن کے درمیان ملاقات ہو نے میں اب چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں اس ملاقات کے عالمی حالات بشمول افغانستان پر یقینا گہرے اثرات مرتب ہوں گے جس طرح چین اب تائیوان پر اپنے موقف میں شدت پیدا کر رہا ہے بالکل اسی طرح پیوٹن کی بھی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ وسطی ایشیا کے ان ممالک کو دوبارہ اپنی دسترس میں لے کہ جن کا شیرازہ انیس سو اسی کی دہائی میں امریکن سی آ ئی اے کی سازشوں کی وجہ سے بکھر گیا تھا ان ریاستوں میں یوکرائن اور بیلاروس پر تو وہ ایک مرتبہ پھر سیاسی طور پر حاوی ہوچکا ہے اور باقی ماندہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کو بھی وہ اپنے جام میں اتارنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے امریکہ پر ظاہر کر دیا ہے کہ وسطی ایشیا اس کیلئے اب ریڈ لائن ہے اور امریکا اس لائن کو کراس کرنے کی کوشش نہ کرے بالکل اسی طرح چین نے بھی امریکہ کو خبردار کر دیا ہے کہ تایوان اس کے لیے ریڈ لائن ہے اور وہ اس میں مداخلت کرنے کا ارادہ چھوڑ دے لگ یہ رہا ہے کہ یورپ میں بھی غالبا نئی صف بندی ہونے والی ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ دو حصوں میں سیاسی طور ہر منقسم ہو گیا تھا مغربی یورپ کے ممالک نے امریکہ کی قیادت میں اپنے لیے نیٹو کے نام سے ایک پیکٹ بنا لیا تھا اور اس کے مد مقابل بعض مشرقی یورپ ممالک پر مشتمل ممالک نے وارسا پیکٹ کے نام سے ایک عسکری اتحاد قائم کر دیا تھا ایک عرصہ دراز تک نیٹو اور وارسا پیکٹ کے ممالک کے درمیان دشمنی کا چلن عام ریا سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد یہ دونوں متحارب گروپ عملاً غیر فعال ہو چکے تھے۔ جو بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان چند روز میں ہونے والی میٹنگ نہایت اہمیت کی حامل ہو گی اس پر سیاسی مبصرین کی کافی گہری نظر ہے یاد رہے کہ یہ دونوں عالمی لیڈر ایک دوسرے کو کو دل سے پسند نہیں کرتے صدر جو بائیڈن نے تو ایک مرتبہ پیوٹن کو قاتل کا خطاب بھی دیا تھا اب اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ دو سیاسی رقیب آئندہ کیلئے اپنے اپنے گروپ سے تعلق رکھنے والے ممالک کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کر تے ہیں۔