غریب آدمی کی سواری۔۔۔۔۔۔

اگلے روزگھوٹکی کے قریب ریل کے ایک حادثے میں درجنوں مسافر لقمہ اجل بن گئے اور کئی مسافر شدید زخمی بھی ہوئے یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس قسم کے واقعات اب ایک معمول بن چکے ہیں ایک چیز البتہ طے ہے اور وہ یہ  ہے کہ ریلوے کے اکثر حادثات  میں انسانی غلطی کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے تان پھر آکر وہاں ٹوٹتی  ہے کہ ہر سرکاری محکمے  بشمول  پاکستان ریلوے میں  گڈ گورننس کا فقدان ہے سرکاری  محکموں میں اگر افرادی قوت میرٹ کی بجائے سفارش پر بھرتی کی جائے گی اور اس کو تقرری سے پہلے  مناسب ابتدائی تربیت نہیں دی جائے گی تو پھر یہی کچھ ہوگا جس  کا نظارہ ہم روزانہ کسی نہ کسی شکل میں دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ تقسیم  ہند کے بعد ورثے میں ہمیں پاکستان ریلوے کی شکل میں ایک فعال اور متحرک قسم کا ریاستی ادارہ ملا تھا  اور کئی عرصے تک لوگ کسی اور سفر کے بجائے ریل کے سفر کو ترجیح اس لیے دیتے تھے کہ ہماری ریل گاڑیاں  بروقت چلا کرتی تھیں اور ریلوے کا سفر نہایت محفوظ تھا ریل گاڑی میں کھانے پینے کا انتظام حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوا کرتا تھا ریل کے ساتھ جڑی ہوئی ڈائننگ کار میں کھانا پینا فراہم کر دیا جاتا تھا پاکستان ریلوے کا زوال اس دن سے شروع ہوا کہ جب اس میں سٹاف کی بھرتی  میں  میرٹ کے بجائے سیاسی مداخلت سے ہونے لکی لگی اور جہاں دس افراد سے کام چلایا جا سکتا تھا وہاں پچاس افراد  بھرتی  کئے جانے لگے جس کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ سٹاف کی تنخواہوں میں جانے لگا۔یہ  بات قابل  ذکر ہے کہ جب برصغیر کا بٹوارہ ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں میں ریلوے کا ایک بڑا منظم نظام موجود  تھا بھارت نے کمال ہوشیاری اور دوراندیشی کے ساتھ اپنے ریلوے نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی اصلاحات کیں ان کو اس بات کا احساس تھا کہ ریلوے چونکہ غریب لوگوں کی سواری  ہے لہٰذا اس کو بہتر سے بہتر بنایا جائے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور تک ہمارے  اکثر صدور اور وزرائے اعظم اور خصوصا ریلوے کے وزیر  جب کبھی بھی ملک کے اندر سفر کرتے تو  وہ ریلوے کے ذریعے کرتے ان کے سفر کیلئے ریل گاڑی کے ساتھ  ایک خصوصی کمپارٹمنٹ لگا دیا جاتا  جسے سیلون saloon کہا جاتا اور جس میں ان کے بیٹھنے لیٹنے اور خورد و نوش کا مناسب بندوبست ہوتا ریلوے کے ساتھ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے جس بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا وہ ایک لمبی داستان ہے چونکہ ریلوے غریب آدمی کی سواری تھی  اور ہمارے اکثر عوامی نمائندے عوام سے ہٹ کر سرمایہ دارانہ سوچ کے مالک ہیں۔ہمارے اراکین پارلیمنٹ شاذ ہی ریل گاڑی سے سفر کرتے تھے لہٰذا ان کو کیا پڑی تھی جو وہ اس کی طرف  توجہ دیتے بلوچستان کے دشوار پہاڑی علاقے میں ریلوے لائن کا جال بچھانا ایک عجوبے سے کم نہ تھا  طرح کراچی سے لے کر لنڈی کوتل تک اور پشاور سے لے کر جنوبی وزیرستان کے دہانے تک ریلوے لائن بچھانا کوئی آسان کام نہیں تھا یہ سب کام ریلوے انجینئرنگ میں کمال کا درجہ رکھتے ہیں ہم تو ریلوے کے اس ورثہ کی حفاظت بھی نہ کر سکے کہ جو انگریز یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ کجا یہ کہ ہم مزید اصلاحات کرتے  ہم نے تو الٹا اس ملک میں کئی جگہ ریلوے کی قیمتی پراپرٹی اونے پونے داموں بیچ ڈالی ہماری غفلت کا یہ عالم  ہے کہ کئی علاقوں  میں حکام کے ناک کے نیچے یار لوگوں نے ریلوے کی پٹریاں اکھاڑ کر فروخت کر ڈالیں اور ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی  جبکہ تمام تہذیب یافتہ ممالک اپنے ریلوے کے نظام کو اپنی ترجیحات میں بلند مقام پر رکھتے ہیں تاکہ ان میں بسنے والے عام ادمی کو ایک اچھی ٹرانسپورٹ ہر وقت میسر ہو۔ اب بھی موقع ہے کہ پاکستان ریلوے کو جدید سہولیات سے آراستہ کرکے اور اس کو وسعت دے کر اس کے کھوئے ہوئے مقام کو واپس لوٹایا جاسکے۔