منقسم دنیا ۔۔۔۔۔۔

دھیرے دھیرے نواز لیگ اور پی پی پی میں دوریاں بڑھ رہی ہیں جس سے مولانا فضل الرحمان صاحب کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے  زرداری صاحب خراماں خراماں چلنے پھرنے لگے ہیں جس سے  پی پی پی کے پرانے  وفا دار ورکرز اور رہنما خوش نظر آ تے  ہیں کیونکہ ان کے نزدیک  پاکستان کی سیاست کے  اسرار و رموز کو جتنا زرداری بہتر سمجھتے  ہیں اتنا  پی پی پی کا کوئی اور لیڈر نہیں سمجھ سکتا اور جہاں تک بلاول بھٹو کا تعلق ہے تو تجربے کیلئے دنیا میں آج تک کوئی شارٹ کٹ ایجاد نہیں ہوا یہ صرف وقت کے ساتھ انسان کے ہاتھ آ تا ہے۔بلاول اور مریم نواز دونوں کو ڈھیر سارے اسرار ر موز جاننے میں ابھی وقت لگے گا۔ جہاں تک  اگلے سال کے  مالی بجٹ کا تعلق  ہے اس  سے  زیادہ توقعات رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا کیونکہ ایک تو گزشتہ حکومتوں نے  غیر ملکی قرضوں کا  جو ملبہ  2018 میں چھوڑا تھا اسے صاف کرنے کیلئے بھی موجودہ حکومت کو کافی  وقت  درکار تھا اور پھررہی سہی کسر کورونا کی وبا نے پوری کر دی۔ معاشی طور پر آج ہمارا ملک نہایت  مشکل سے دوچارہے  اس سے پیشتر کہ ہم چند اہم  انٹرنیشنل سطح کے معاملات پر کچھ لکھیں  ہم  اس بات کو دہرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کو جلد از جلد جلد ممکنہ پانی کے بحران کی طرف ترجیحی بنیاد پپر توجہ دینی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی  کو روکنے کیلئے بھی موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔بین الاقوامی سطح پر جون کا مہینہ نہایت  اہمیت کا حامل  ہے اس دوران دو ایسے  اہم  واقعات ہونے جا رہے  ہیں جو اپنی اپنی اپنی  جگہ سیاسی طور پر اہم تصور کئے جا رہے ہیں  ایک تو امریکہ کے صدر بائیڈن  اور روس کے صدر پیوٹن کی چند دنوں  میں ملاقات متوقع  ہے دوسری طرف ایران کا صدارتی الیکشن  ہے جہاں  تک کہ امریکی اور روسی صدور کی ملاقات کا تعلق  ہے  توامریکی صدر کے لیے  چین اور روس کے درمیان  بڑھتا ہوا  تعلق  پریشانی کا سبب  ہے کیونکہ یک نہ شد دو شد پہلے اس کے مد مقابل کسی زمانے میں صرف سوویت یونین  ہوا کرتا تھا اب چونکہ سوویت یونین اور  چین آپس میں یک جان دو قالب ہو چکے  ہیں لہٰذا امریکہ  کو بیک وقت دو محازوں  پر لڑنا ہوگا اور یہ کوئی کوئی آسان کام نہیں پیوٹن کی یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ وسطی ایشیا کے ان ممالک کو  دوبارہ اپنی دسترس میں کرلے  کہ جن کو امریکہ نے  ایک عالمی سازش کے ذریعے چند سال قبل سوویت یونین کی دسترس سے باہر نکال دیا تھا جبکہ اس کے برعکس امریکہ یہ بات بالکل  نہیں چاہتا   کہ روس ایک مرتبہ  پھر وسطی ایشیا کے ممالک میں اپنا غلبہ پیدا کرے اور اور اسی مقصد کے حصول کیلئے وہ اس خطے  میں روس  کے آس پاس کہیں اپنی ملٹری تنصیبات لگانا چاہتا ہے  تاکہ اس کے نزدیک بیٹھ  کر  وہ اس خطے کے حالات پر کڑی نظر رکھے  اور روس کے خلاف سازشوں  کا ایک نیا جال پھیلائے لگ یہ رہا ہے کہ جس طرح ماضی میں دنیا دو واضح سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئی تھی  اور ان دونوں نے اپنے اپنے لئے علیحدہ علیحدہ  ملٹری پیکٹ بنا لیے  تھے جیسا کہ نیٹو اور وارسا بالکل اسی طرح آئندہ چند برسوں میں بھی  تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے  ایک طرف چین اور روس کی قیادت میں میں دنیا کے بعض ملکوں کا ایک مضبوط سیاسی اور عسکری گروپ تشکیل ہوگا اور دوسری طرف اس کے مد مقابل امریکہ کی زیر نگرانی ایک  متحارب گروپ  عمل میں آئے گا ’ان  دونوں گروپوں کے درمیان  ہر  وقت کشمکش رہے گی  اور اور دنیا کے سیاسی افق پر ہر وقت جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔