گردوپیش کے حالات

 ہندو بنیا بڑا کایاں ہے اس نے جب یہ محسوس کیا کہ افغانستان میں طالبان کا دور آ نے والا ہے تو اس نے ان طالبان پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیئے کہ جو پاکستان کا دم نہیں بھرتے اور وہ ان کو اپنے جام میں اتارنے کی کوشش میں مشغول دکھائی دے رہاہے اسی طرح امریکہ نے سی پیک کے مقابلے میں بلیو ڈاٹ نیٹ ورک (Blue.network)کے نام سے بین الاقوامی سطح پر ایک عالمگیر ترقیاتی ادارہ قائم کر دیاہے جس کے اغراض و مقاصد سی پیک جیسے ہی ہوں گے پر اس میں نجی سیکٹر کو شمولیت کی بھی دعوت دی جائے گی کمال کی بات یہ ہے کہ اس میں چین نے بھی شرکت کا عندیہ دیا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بڑی تیزی کے ساتھ دو متحارب گروپس میں تقسیم ہونے جا رہی ہے افغانستان کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے نہ جانے کب اس کی سختی معاف ہو طالبان کے اندر ایک یہ سوچ بھی موجود ہے کہ نائن الیون کے وقت افعانستان میں ان کی حکومت موجود تھی جسے امریکہ نے طاقت کے بل بوتے پر چلتا کیا تھا لہٰذا اب جب امریکی افواج کا اس ملک سے انخلاء ہو گا تو قانون اور اخلاقیات دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی جبری طور پر سبکدوش کی گئی اس حکومت کو سب سے پہلے بحال کیا جائے۔کچھ اس نوع کی بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ اس کی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ترکی کی افواج افغانستان میں کچھ عرصے تک موجود رہیں۔یاد رہے کہ نیٹو کے ممبر ملک ہونے کے ناطے ترکی کے چند فوجی دستے بھی افغانستان میں موجود ہیں۔یہ بھی یاد رہے نسلی ناطے کے لحاظ سے افعانستان کے ازبک ترکی کے کافی قریب ہیں اور افغانستان کے ایک سرکردہ رہنما عبدالرشید دوستم کے ترکی کے ساتھ کافی گہرے مراسم ہیں۔ اگر امریکن افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں کسی بھی ملک کا کوئی فوجی دستہ چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ بات کافی عجیب ہو گی اور کسی مرحلے پر متنازعہ بھی بن سکتی ہے‘ہاں یہ اور بات تھی کہ اگر وہاں امن و امان کے حصول کی خاطر تھوڑے عرصے تک اقوام متحدہ کا کوئی امن مشن چھوڑ دیا جاتا ہے پر وہ بھی افغانستان کے متحارب سیاسی گروہوں کے ساتھ گفت وشنید کے بعد۔دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے لگ بھگ 75 برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اس دوران ہم نے دیکھا کہ دنیا دو مختلف سیاسی گروپس میں تقسیم ہو کر رہ گئی ان میں سرد جنگ کا آغاز بھی ہم  نے دیکھا اور پھر سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے  میں اس کا انجام بھی۔کئی سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا multipolar  نہیں رہی بلکہ یونی پولر (unipolar)  ہو گئی ہے پر یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی تھی کیونکہ  1980 ء کے  بعد چین کی شکل  میں دنیا  میں ایک ایسی سپر پاور کے ظہور کا دور شروع  ہو چکا تھا کہ جس نے دنیا کی معیشت  پر مضبوط گرفت حاصل کر لی تھی اسی طرح روس میں بھی ایک ایسا مضبوط سیاسی طبقہ دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے کہ جسے سوویت یونین کے بکھر جانے کا بڑا قلق تھا اور وہ روس کی  نشاۃثانیہ چاہتا تھا اس گروپ سے تعلق رکھنے والے روسیوں کو پیوٹن نے ایک جھنڈے کے نیچے جمع کر لیا ہے اور وہ سب مل جل کر روس کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اس مقصد کے لئے انہوں نے  چین کے ساتھ بھی اپنے روابط بہت بہتر کر لئے ہیں جو کہ ماضی میں کئی برسوں تک  سردمہری کا شکار تھے۔امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ دورہ یورپ اسی سلسلے کی ایک ایک کڑی ہے  اس دورے میں تین محاذوں پر انہوں نے کام کیا ایک تو (G-7) جی سیون کے ادارہ میں وہ بھارت آسٹریلیا اور جاپان کو شامل کر کے اسے مزید وسعت دینا چاہتے ہیں دوسری طرف وہ نیٹو کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور تیسری جانب وہ یورپین ہونین کو مزید فعال بنانا چاہتے ہیں۔مندرجہ بالا نئے زمینی حقائق کا حوالہ دینا اور ان پر بحث و مباحث کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اب ان غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا کہ جو ماضی میں سر زدہوتی رہیں۔