یادگار سفر۔۔۔۔۔۔۔

میں تربیلا ڈیم پہنچا میں نے 60ء کے عشرے کے ابتدئی برسوں میں یہ ڈیم بنتے دیکھا تھا اس کے پیچھے بننے والی بہت بڑی جھیل کی وجہ سے اجڑ جانے والوں کو نئے ٹھکانے دیئے جانے کے بڑے بڑے وعدے سنے تھے 25سال بعد میں وہاں گیا تو پتا چلا کہ تربیلا کی جھیل کی تہہ میں مٹی جمع ہو رہی ہے اور پانی کے ذخیرے کی گنجائش گھٹتی جارہی ہے پھر میں نے بے گھر ہونے والوں کو دیکھا جن سے کئے گئے وعدے بھلا دیئے گئے تھے اور جن کے احتجاج اور مطالبوں کی طرف سے کان بند کرلئے گئے تھے۔ اب ہماری راہ میں وہ مقام آیا جسے تاریخ نے اور تاریخ دانوں نے بھلا دیا ہے اس کا نام ہنڈ ہے ہند کو جانے والے سارے لشکر یہیں سے دریا پار کرتے تھے دریا کے جن کناروں کو بہتے ہوئے پانی نے کاٹا ہے ان میں قدیم بستیاں تہہ بہ تہہ اوپر نیچے چنی ہوئی نظر آتی ہیں میرا اگلا پڑاؤ بھی اتنا ہی تاریخی تھا‘ دریائے سندھ کے کنارے اس مقام کا نام باغ نیلاب تھا شیر شاہ سوری کی عظیم سڑک یہیں سے شروع ہوکر بنگالہ تک جاتی تھی‘پرانی آبادی کے نشان ہیں‘ ماضی کی عظمتیں نظر تو نہیں آتیں مگر محسوس ہوتی ہیں‘ دریا یہاں آکر بالکل چپ ہوجاتا ہے ایک جگہ وہ اتنا تنگ ہے کہ کسی بہادر کے گھوڑے نے ایک ہی جست میں اسے پار کرلیا تھا آج وہاں جو گاؤں ہے وہ اتنا صاف ستھرا‘آراستہ اور سلیقے سے بنا ہوا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کوئی اور آکر اسے بناگیا ہے‘ اب مجھے داؤد خیل‘کالا باغ اور کمر مثانی جانا تھا اٹک میں اس ریل کار میں بیٹھا جو ماڑی انڈس تک جاتی ہے وہاں سے سوزوکی وین میں بیٹھا رات تاریک ہونے لگی تھی وین کے ڈرائیور نے اعلان کیا کہ گاڑی اس سے آگے نہیں جائیگی کچھ دیر بعد ایک ویگن آکر رکی ڈرائیور نے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا اور تمام مسافروں سے کہا بیٹھ جائیے ان صاحب نے ہمیں وہاں اتار جہاں سے کمرمثانی کی بس ملتی ہے راہ میں ایک نوجوان نے میری ذمہ داری سنبھال لی وہ تاریکی میں میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گیا جہاں پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ ذرا سوچو‘میرے ساتھ کون صاحب آئے ہیں۔ بس اس کے بعد ایک گھر ہی کے نہیں دلوں کے دروازے بھی کھل گئے خاطر مدارات کے بعد مجھے آرام سے سلا دیاگیا۔ انسانی زندگی پربعض بظاہر چھوٹے واقعات گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں‘ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں بڑی بڑی باتیں تو سب ہی کو یاد رہتی ہیں مجھے ان چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاؤ ہے جو نہ صرف یاد رہتی ہیں بلکہ یاد آکر خوشیاں بھی دیتی ہیں‘ہماری گاڑی خانیوال پہنچ گئی کیسا جیتا جاگتا سٹیشن تھا‘ شہرکے لڑکے بن سنور کے آئے تھے اور زنانہ ڈبوں کے سامنے شوخیاں کررہے تھے مگر مجھے وہ چھوٹا لڑکا خوب یاد ہے جس نے میرے کان کے قریب آکر چائے کی آواز لگائی‘ میں نے کہا میرے لئے چائے لے آؤ وہ خوش ہوکر چائے لینے دوڑا‘ یہ توکوئی بڑی بات نہیں دوڑتے دوڑتے اس نے کہا شکریہ۔ اتنے چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے لڑکے کی زبانی ایسا سچا کھنکتا ہوا لفظ سنا تو جی جھوم اٹھا‘ اتنے میں ایک درویش صفت بزرگ آگئے جن کے ہاتھوں میں جوتے پالش کرنے کا سازو سامان تھا بہت غریب تھے مگر تنگدستی کی شکایت نہیں کی پولیس والوں کے جوتے پالش کرکے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے محفوظ رہتے تھے‘میری جیب میں ایک ایک دو دو روپے کے کچھ نوٹ تھے جو میں نے انہیں دے دیئے‘ لے کر چلے تو گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہیں آکر میرے دیئے ہوئے نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے‘بولے ’صرف عزت والا کام کرتا ہوں یہ نہیں کہ کوئی غلط کام کروں میں نے ان سے جوتوں پر پالش نہیں کرائی تھی اور انہیں محنت کے بغیر خیرات لینا منظور نہ تھا‘ میری گاڑی سرکنے لگی میں کمسن چائے والے اور ضعیف عزت والے کو شکریہ بھی نہ کہہ پایا‘ خانیوال سے آگے میدان ہی میدا ن تھے نہ کوئی پہاڑی نہ کوئی ٹیلہ گاڑی جابجا نہروں کے اوپر سے گزرتی تیر کی طرح سیدھی چلی جارہی تھی‘ ملتان اور لاہور کے درمیان دو سو آٹھ میل لمبی یہ لائن 1864ء میں ڈالی گئی تھی اس وقت یہ کام آسان نہ تھا‘ ٹھیکیداراناڑی تھے مزدور نایاب تھے یہاں تک کہ پٹڑیوں کے ساتھ ساتھ بچھانے کے لئے پتھر بھی دستیاب نہ تھے میں اس شام لاہور پہنچا تو میرے بی بی سی کے ساتھی شاہد ملک اور ان کے کچھ دوست مجھے لینے آئے تھے اس وقت ان میں بحث ہورہی تھی کہ عابدی صاحب اونچے درجے میں بیٹھے ہوں گے یا نیچے درجے میں بہر حال وہ پلیٹ فارم پراس جگہ کھڑے میرا انتظار کررہے تھے جہاں اونچے درجے کے ڈبے لگتے ہیں۔اس شام انہیں مایوسی ہوئی۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)