ایک صائب اقدام۔۔۔۔

وقفے وقفے سے وزیراعظم صاحب نے ٹیلیویژن پر براہ راست عوام الناس کے سوالات کے جوابات دینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے وہ اس ملک کے عام آدمی کیلئے بڑا سودمند اور کارآمدہے وہ اب قومی اور مقامی امور پر وزیراعظم کو براہ راست مطلع کر سکتا ہے اس مشق سے وزیراعظم صاحب کو خود بھی بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے اور ان کو براہ راست پتہ چل رہا ہے کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے اور عوام ان کی پالیسی سے کس حد تک مطمئن یا غیر مطمئن ہیں اس سلسلے میں تا ہم جو بات بہت اہم اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے سوالات پر وہ جو احکامات صادر کرتے ہیں ان پر کماحقہ عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا نہیں بالفاظ دیگر ان کے احکامات پر سو فیصد ایکشن لینا از حد ضروری ہے ورنہ اس مشق سے عام آدمی کو وہ فوائد حاصل نہ ہوں گے کہ جن کے حصول کیلئے اسے شروع کیا گیا ہے۔اس ملک میں مختلف حکمرانوں نے عوام الناس کے خیالات جاننے کیلئے مختلف طریقہ کار اپنائے جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے تو انہوں نے ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر صبح ساڑھے سات بجے ان کے ناشتے کی میز پر دو صفحات پر مشتمل ایک پریس رپورٹ موجود ہو کہ جس میں ملک میں چھپنے والے تمام اخبارات میں اہم معاملات پر خبروں تبصروں اور اداریوں کا نچوڑ دیا گیاہو۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا میں صرف پی ٹی وی کام کر رہا تھا اور نجی سیکٹر میں ٹیلی ویژن چینلز کا ظہور نہیں ہوا تھا وزیر اعظم کی ٹیلی ویژن پر پبلک ریلیشنگ کی یہ مشق ایک صائب اقدام ہے اسے جاری رہنا چاہئے بلکہ اس کے دورانیے میں اضافہ ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کر سکیں پر یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اس مشق کے دوران وزیر اعظم جو احکامات صادر کرتے ہیں ان پر فالو اپ ایکشن کی مانیٹرنگ بھی بہت ضروری ہے ورنہ اس مشق کی کیفیت بھی نشتن و گفتن و بر خواستن جیسی ہو جائیگی۔کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوتا  ہے کہ وہ عوام کے مسائل سے کس حد تک باخبر ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے انہوں نے جو احکامات صادر کئے ہیں ان پر کتنے فیصد عمل ہوا ہے ایک اچھے حکمران کو نیند نہیں آتی اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ اس کے ملک کے عوام یا اس کی رعایا بے چین ہے۔ کچھ ایسے حکمران ہوتے ہیں جو سب اچھا سننے کے موڈ میں ہوتے ہیں اورانہیں یہ نہیں بتایا جا تاکہ عوام اسکی فلاں فلاں پالیسی پر نالاں ہیں اور یہیں سے پھر اسکے زوال کے دن شروع ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ پھر زمینی حقائق سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ جب اسلم خٹک صاحب خیبر پختونخوا کے گورنر تھے تو انہوں نے تمام انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ کہ وہ اپنی خفیہ رپورٹوں میں غیر مبہم الفاظ میں صاف صاف لکھا کرینگے کہ ان کے مختلف احکامات اور اقدامات کے بارے میں صوبے کے عوام کیا سوچتے ہیں اور انہیں کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں حتی کہ اگر ان کیخلاف کوئی نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتا ہے تو انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کا یہ فرض ہے کہ وہ من و عن ان الفاظ کو اپنی رپورٹ میں درج کر دیا کریں تاکہ انکو اندازہ ہو سکے کہ انکے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں اور کس قسم کے جذبات رکھتے ہیں تا کہ پھر وہ اپنی اصلاح کر سکیں اگر انٹیلی جنس اداروں کی ہر معاملے میں رپورٹیں زمینی حقائق کے مطابق ہوں گی  تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حکمران کوئی غلطی کریں۔