بھارت کی نئی ریشہ دوانیاں 

اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ امریکہ اور بھارت دونوں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کو ناکام بنانے کیلئے ان علاقوں میں خود کش حملے کروائیں گے کہ جن میں ان دو عظیم ترقیاتی منصوبوں کا کام جاری و ساری ہے یہ جو گزشتہ اتوار کے دن کوئٹہ میں مستونگ روڈ پر خودکش حملہ ہوا ہے یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اگر یہ کہا جائے کہ بھارت اور امریکہ نے پاکستان کے خلاف نئی پراکسی وار شروع کر دی ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ اس ضمن میں افغان طالبان حکومت کو بھی ہوشیار رہنا پڑے گا آج کل سپر پاورز نے یہ چلن اختیار کر لیا ہے کہ وہ براہ راست اپنے مخالف ملکوں میں فوجی مداخلت نہیں کرتیں وہ پراکسی وار کا سہارا لیتی ہیں وہ ان ممالک میں امن عامہ خراب کرنے کیلئے مختلف قسم کے حربے استعمال کرتی ہیں جیسا کہ مخالف ممالک کے خلاف میڈیا کے ذریعے بھرپور پراپیگنڈا اور یا پھر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خودکش حملوں کا وطیرہ استعمال کیا جاتا ہے اب خود کش حملہ ایک ایسا خطرناک حربہ ہے کہ جس کو کنٹرول کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہایت ہی مشکل ہے اور اس کے خلاف ہر لمحے ہمیں متحرک اور بیدار رہنا ہوگا۔اب افغانستان کے حالات کافی بدل چکے ہیں اور وہاں ایسی حکومت وقت بر سر اقتدار آگئی ہے کہ جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی اب ہمارا تمام تر فوکس ان علاقوں پر ہونا چاہئے کہ جن میں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا دشمن ان علاقوں میں حالات خراب کر کے چین اور پاکستان دونوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نریندرا مودی کا ڈاکٹرائن پاکستان اور مسلم مخالف ہے اور اسی پاکستان مخالف پاگل پن نے اس کو الیکشن جتوایا اس نے انتخابات میں آر ایس ایس کو پوری طرح استعمال کیا اور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے۔ یہ مظالم جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر مودی کے ان جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو بہت مناسب ہوگا پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ہم اگر عالمی عدالت انصاف میں جائیں تو ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ مودی وار کرمنل ہے ہمارے چاروں طرف محاذ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔اس طرح امریکہ اگر چہ خطے سے بظاہر نکل گیا ہے تاہم اس کے مفادات یہاں پر موجود ہیں اور وہ چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کریگاجس میں بد امنی کو فروغ دینا شامل ہے،جس کا مقابلہ خطے کے ممالک مل کر ہی کر سکتے ہیں۔ا س حوالے سے یہ اہم نکتہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اس معاملے میں ہمارا کتنا ساتھ دیتی ہے چین افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا وہ 14 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان کو یہ کوشش کرنی چاہے کہ پاکستان چین افغانستان ایران اور روس پر مشتمل ایک نیا بلاک وجود میں آ جائے۔ آنے والے وقت میں ترکی کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہو گا۔