امتحان کا وقت

جس سورج کا دنیا کو بے چینی سے انتظار تھا انجام کار وہ گزشتہ منگل کے دن طلوع ہوہی گیا۔ طالبان نے بالآخر اپنی حکومت کی تشکیل کر ہی دی سردست نئی افغان حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ اور لگ یہ رہا ہے کہ پہلے مرحلے میں چین پاکستان ایران اور روس جب اس نئی حکومت کو تسلیم کر لیں گے تو بارش کے ان ابتدائی قطروں کے بعد موسلادھار بار ش کی طرح دیگر کئی ممالک بھی اسے تسلیم کرتے ہی جائیں گے۔ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے امتحان کے پرچے کا وقت شروع ہو گیا ہے ان کے سامنے امتحانی پرچے میں جو سوالات ان کو حل کرنے کے لیے دئے گئے ہیں وہ بڑے مشکل سوال ہیں اور خدا کرے وہ ان کے صحیح جوابات دینے میں کامیاب ہوجائیں ہمارے نزدیک ان کو حل کرنے کیلئے جو پہلا سوال دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کے جو ستر ہزار کے قریب جنگجو ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا کیا ان کو افغانستان کی نیشنل آ رمی میں ضم کیا جائے گا یا وہ نجی طور پر اپنے لئے کوئی ذریعہ معاش پیدا کریں گے تا کہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے واسطے دو وقت کی روٹی پیدا کر سکیں یہ دونوں کام اگر ناممکن نہیں تو مشکل بہت ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ریگولر فوج کی نوکری ایک سائنس ہوتی ہے اسی طرح زمانہ امن میں فوج کی نوکری ایک علیحدہ سائنس کا درجہ رکھتی ہے جو ایک خاص قسم کی تنظیم کا تقاضہ کرتی ہے۔ زمانہ امن میں فوج کا کام کسی اور نوعیت کا ہوتا ہے اسی طرح جن لوگوں نے اپنی زندگی کے بیس برس یا اپنی زندگی کا بیشتر حصہ میدان جنگ بطور چھاپہ مار گزارا ہو ان میں شاذ ہی نجی طور ہر کسی کاروبار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جہاں تک عالمی سیاست کا تعلق ہے آج دنیا کی سیاست بڑی گنجلک ہو چکی ہے اور عام آ دمی کی سمجھ میں آ سانی سے آ نے والی نہیں ہے سابقہ افغان حکومت کے نائب صدر امر صالح فرارہو کر تاجکستان پہنچ چکے ہیں وہ اپنے آپ کو اشرف غنی کے چلے جانے کے بعد افغانستان کا صدر قرار دے رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تاجکستان کی حکومت کیا ان کو سیاسی پناہ صدر افغانستان کی حیثیت میں دے گی یا پھر ایک مفرور کی حیثیت میں ان سے سلوک کرے گی یہ بات اپنی جگہ غور طلب ہے کہ تاجکستان ماسکو کے زیر اثر ہے اور روس ایک کمیونسٹ ملک ہے جو دل سے شاید کبھی یہ نہ چاہے کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں طالبان کا کلچر فروغ پائے پر سر دست سیاسی مصلحت اسے مجبور کر رہی ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات خوشگوار رکھے اور کوئی ایسا قدم اٹھانے سے احتراز کرے کہ جس سے وہ خیر سگالی کا جذبہ کسی طور متاثر ہو جو اس نے افغانستان کے دل میں اپنے لئے پیدا کر لیا ہے چونکہ اس کا پرانا حلیف ملک بھارت امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے اور امریکہ کی شہ پر چین سے دشمنی کی راہ پر چل نکلا ہے اس لئے ماسکو چین کے ساتھ اشتراک عمل سے امریکہ اور بھارت کے خلاف ایک مضبوط محاذ بنانے کا بھی سوچ رہا ہے یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ایک طرف تو دنیا کے کئی طاقتور ممالک ایک دوسرے کے خلاف دشمنیاں بھی پال رہے ہیں پر ان دشمنیوں کو آپس کے معاشی اور تجارتی تعلقات کے آ ڑے آ نے کی اجازت بھی نہیں دے رہے اس ضمن میں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ایک آ دھ دن میں شنگھائی کوآپریشن کانفرنس کا انعقاد بھی ہو رہا ہے جس میں اس خطے کے کئی ممالک آپس میں مزید معاشی تعاون کا دائرہ بڑھائیں گے اور اس کیلئے نئی راہیں بھی تلاش کریں گے ازبکستان‘ کرغستان‘ تاجکستان‘ چین‘روس‘ پاکستان اور بھارت اس کے پہلے ہی سے ارکان ہیں اور اب ایران اور افغانستان کو بھی اس ادارے کا رکن بنایا جا رہا ہے۔طالبان کی حکومت کو ان اشیائے صرف کی مقامی پروڈکشن کی طرف زیادہ توجہ دینی ہو گی کہ جو روز مرہ کے استعمال میں آتی ہیں اور جن کے حصول کیلئے ہر افغان حکومت کو اب تک دوسرے ممالک پر انحصار کرنا پڑ رہاہے اور یا پھر وہ سمگلنگ کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔