تیزی سے بدلتے سیاسی حالات

امریکن سی آئی اے کے چیف کا گزشتہ جمعرات کے دن پاکستان کا دورہ بڑی اہمیت کا حامل تھا وہ پہلے بھارت گئے اور وہاں سے اسلام آباد آ ئے امریکہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی بقول کسے اس کی اس خطے میں مفاد کی بات ہو تو اسے پاکستان کی یاد ستاتی ہے پر دکھ اس بات کا ہے کہ جب امریکہ کا مطلب نکل جاتا ہے تو وہ پاکستان سے ایسے آ نکھیں پھیر لیتا ہے کہ جیسے کبھی اس کی ہم سے کبھی کوئی شناسائی ہی نہ تھی۔امریکن سی آئی اے کے چیف نے اب کی دفعہ بھی بقول کسے ہمارے رہنماؤں کو کہا ہوگاکہ اگر وہ امریکہ کی بات مان لیں تو پاکستان کو فیٹف کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے اور آئی ایم ایف سے پاکستان کیلئے سہولیات حاصل کی جا سکتی ہیں بصورت دیگر پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ امریکہ پاکستان سے محبت کی پینگیں بڑھانا چا رہا ہے اس سے پیشتر بھی کئی کئی مرتبہ اس نے کچھ عرصے کے لئے ہماری امداد اس لئے کی کہ اس خطے میں وہ ہماری سرزمین استعمال کرنا چاہتا تھا جب اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے تو اس نے ہم سے اپنی آنکھیں پھیر لیں آج پھر اسے یہ احساس ہو چلا ہے کہ اس خطے میں منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کو جو سٹریٹجک اہمیت حاصل ہے اس کے پیش نظر پاکستان کی حمایت یا اشیر باد کے بغیر وہ یہاں اپنا کوئی بھی نیا سیاسی مقصد حاصل نہیں کر سکتا پر ہمارے لئے بہتر یہ ہو گا کہ ہم اسے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت سے کھلا انکار کردیں کہ اسی میں اس ملک کی بقا ہے‘ دیر سے ہی سہی پر افغانستان کو اشیائے خوردنی کی فراہمی کا جو بیڑا حکومت نے اٹھایا ہے اسے کچھ عرصہ تک جاری رکھنا چاہئے مشکل کی گھڑی میں اگر ہم افغانستان کی اس طریقے سے امداد کریں گے تو اس کے خوشگوار نتائج برآمد ہوں گے ادھر نیو یارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا، 18 ملین افغانیوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے‘ عالمی برادری انسانی بنیادوں پر کابل سے تعاون کرے، آج افغانستان اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے،  افغانستان کے منجمد اکاونٹس کا بحال ہونا ضروری ہے، افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے‘ میانمار کے نام سے تو آپ یقینا با خبر ہوں گے اس ملک کا پرانا نام برما تھا اور ایک عرصہ دراز تک یہ برطانیہ کی کالونی رہا ہے اس کے ایک حصے میں تقریبا ًتیس لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں جنہیں روہنگیا کے مسلمانوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان مسلمانوں پر برما کے لوگوں جن کی اس علاقے میں اکثریت ہے ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہیں،روہنگیا کے مسلمان اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے بنگلہ دیش کی طرف بھی ہجرت کر رہے ہیں اور دوسرے ہمسایہ ملکوں کی جانب بھی جس علاقے میں روہنگیا کے مسلمان رہتے ہیں وہ ہندوستان کی ان بعض ریاستوں کے بھی قریب واقع ہے کہ جن میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق روہنگیا کے مسلمانوں نے آج کل اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف رد عمل کے طور پر بندوق اٹھا لی ہے اور حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے جس سے میانمار (برما) کا امن عامہ تاراج ہو رہا ہے اس سے ان کے علاقے کے اطراف میں بھارت کی اس سرمایہ کاری کے ڈوب جانے کا بھی خدشہ ہے جو اس نے کلکتہ سے اس علاقے تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کی ہے۔