امریکن لابی

سوویت یونین میں جو قیادت دوسری جنگ عظیم کے بعد سٹالن سے لے کر کر پیوٹن تک بر سر اقتدار رہی ان کی سوچ رویوں اور مارکسزم کی تشریح کرنے میں اس سوچ سے کافی مختلف تھی جس کا کہ ماؤزے تنگ چوں این لائی اور ان کے دیگر کامریڈ1979 تک پرچار کیا کرتے تھے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماؤزے تنگ اور ان کی جنریشن کے دوسرے کمیونسٹ لیڈروں کے منظر عام سے جانے کے بعد چین میں جو قیادت بر سر اقتدار آئی ہے اس کی دانست میں اس بات میں کوئی قباحت نہیں اگر کیپٹلیزم سے ان چیزوں کو مستعار لے لیا جائے کہ کہ جو عوام دوست ہوں چناچہ ہم نے دیکھا کہ چین کی وہ قیادت جو1980 سے لے کر اب تک بیجنگ میں برسراقتدار ہے وہ جدت کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے کیمونزم کی بنیادوں پر قائم معیشت میں کئی ترمیمات لائی ہیں کہ جس کا ماو زے تنگ کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سوویت یونین کا جب شیرازہ بکھرا اور وسطی ایشیا کی کئی ریاستیں جو کہ ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کا حصہ رہی تھیں آزاد ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھریں تو یہ بات پیوٹن جیسے قوم پرست رہنماؤں کیلئے ایک ذاتی صدمے سے کم نہ تھی ماسکو کی نئی قیادت کے پیش نظر اگر ایک طرف روس کی نشاط ثانیہ کی خواہش ہے تو دوسری جانب وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ سوویت یونین کی بربادی میں امریکہ ملوث ہے اور اگر اس سے بدلہ لینا ہے تو چین کے ساتھ بنا کے رکھنی ہو گی۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ چند برسوں کے درمیان ان دو ملکوں میں مفاہمت نظر آ رہی ماضی میں کبھی بھی ایک دوسرے کیلئے انہوں نے اتنی گرمجوشی کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا تھا کہ جس طرح وہ آج کر رہے ہیں جس طرح کہ امریکہ کے خفیہ اداروں کو آخری وقت تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ طالبان کابل کے دروازے پر اتنی جلدی پہنچ آئیں گے بالکل ان کو آخری وقت تک یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ چین چپکے چپکے ایک عظیم معاشی عسکری اور سائنسی قوت بن رہاہے کہ جو امریکہ جیسی سپر پاور کو کئی فیلڈز میں مات دے گا آج صورتحال یہ ہے کہ روس اور چین دونوں ایک دوسرے کے شانوں کو استعمال کرکے امریکہ کا پرانا حساب چکائیں گے امریکہ کا تو یہ خیال تھا کہ سویت یونین کے ٹکڑے کرنے کے بعد اب وہ دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا ہے اسے کیا معلوم تھا پہلے تو اس کا صرف سویت یونین سے واسطہ تھا پر اب تو بقول کسے یک نہ شد دو شد اب اسے صرف روس ہی نہیں بلکہ چین کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور ان دونوں سے بیک وقت نبٹنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ نریندرا مودی نے نہ جانے کس زعم میں ا کر امریکہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور اپنے پرانے رفیق روس کو دھتکار دیا کہ جس کے ساتھ اس کا 1947 سے یارانہ تھا اور جس کے ساتھ مل کر اس نے 1971 میں مشرقی پاکستان پر زک لگائی تھی اس نے روس کو داغ مفارقت دے کر اس کے پرانے حریف امریکہ سے جو یارانہ کیاہے اس پر ماسکو کو سخت تکلیف ہوئی ہے۔ امریکہ نے نہ جانے بھارت میں کیا دیکھا جو اس نے اسے چین کے خلاف میدان میں کھڑا کر دیا کیونکہ اس کے تلوں میں تو اتنا تیل ہی نہیں کہ وہ چین کا کسی بھی لحاظ سے مقابلہ کر سکے۔ ماضی قریب میں وہ دو مرتبہ چین کے ساتھ میدان جنگ میں اُلجھ کر منہ کی کھا چکاہے‘اگر چین روس افغانستان پاکستان اور ایران پر مشتمل اس خطے میں ایک بلاک بن جاتا ہے تو یقین کیجئے کہ اس خطے کے عوام کی زندگیوں میں بے حد بہتری آ جائے گی۔