دنیا کی آبادی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اگر اس کو کم کرنے کیلئے فوری ضروری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دنیا میں بھوک اور افلاس کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی سنگین معاشرتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس وقت دنیا میں سات ارب لوگ بستے ہیں ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آخر میں دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب تک پہنچ جائے گی اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر ایک گھنٹے میں دنیا کی آبادی میں دو لاکھ اٹھائیس ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔اور اسی حساب سے اگر اضافہ ہوتا رہا تو 2025 تک دنیا کی آبادی نو ارب تک پہنچ سکتی ہے اس وقت دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ بھی شامل ہے ان مسائل میں دنیا میں خوراک کی بڑھتی ھوئی قیمتیں اور زمین پانی اور توانائی کی کمی کے مسائل بھی شامل ہیں خوراک کی قیمت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونے کا خطرہ ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ 2030 تک اہم فصلوں کی اوسط قیمت میں 180فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے یہ حقیقت نہایت ہی تشویشک ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں انسانوں کو غربت میں دھکیل رہی ہیں اور ان سے خواتین اور بچے حد درجہ متاثر ہو رہے ہیں‘ جہاں تک تعلیم ٹیکنالوجی اور سائنس کا تعلق ہے اسلامی دنیا میں فی باشندہ کتاب کا تناسب ہر 12 ہزار افراد کیلئے ایک کتاب ہے کئی مسلمان ممالک غذائی قلت کے مسئلے سے دوچار ہیں۔آباد ی میں اضافے کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی دنیا کو چاہئے کہ وہ خوراک کی پیداوار اور اپنی منڈیوں کے نظام میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات لائیں۔ وطن عزیز کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں بے تحاشہ آ بادی کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ یہ مسئلہ اسی شدت کا ہے کہ جتنا کہ پانی کے بحران کا مسئلہ ہے‘ جہاں تک اس ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کا تعلق ہے اس میں جس بات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بے شک اس ملک کو درپیش بجلی کے بحران کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سستی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے سستے سے سستے ذرائع اور طریقہ کار کو اپنانا ہوگا پانی سے جو بجلی بنائی جاتی ہے یعنی ہائیڈل پاور وہ دوسرے ذرائع سے حاصل کی جانے والی بجلی سے سستی پڑتی ہے پر آج کل ہوا اور سورج کی شعاعوں سے بھی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے ان تمام ذرائع کو حتی الوسع بروئے کار لانا ہوگا تاکہ عوام الناس کو سستی قیمت ہر بجلی فراہم کی جا سکے اگر ان دو اہم قومی مسائل کو آئندہ چار پانچ سالوں میں سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو وطن عزیز دیگر کئی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔آج کل ایک اور مسئلہ بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے اور وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ الیکشن کرانا ہے اس سلسلے میں دیکھا جائے تو ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور دیر آید درست آید کے مصداق یہ فیصلہ اگر حکومت نے کیا ہے تو اس پر ثابت قدم بھی رہے ہر دور میں اصلاحات اور نئی ٹیکنالوجی کی مخالفت کی گئی ہے تاہم عملدرآمد کے بعد اعتراضات میں کمی آجاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تک انتخابی نتائج ہمارے ہاں ہمیشہ مشکوک ہی رہے اور کسی پارٹی نے اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جو پارٹی الیکشن ہار جائے وہ دھاندلی کا واویلا مچانے لگتی ہے تاہم کسی نے اس سلسلے میں اصلاح کی جرات نہیں کی اب جب حکومت نے الیکٹرانک مشین کے ذریعے اس کا حل نکالا ہے تو حزب اختلاف کو چاہئے کہ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے تعاون کرے اور اگر کوئی اعتراض ہے تو اس کو رفع کرنے کے لئے حکومت کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس طرح انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا یہ سلسلہ جو ایک گھمبیر مسئلے کی صورت عرصہ دراز سے موجود ہے ختم ہو جائے گااور اس میں جمہوریت کا بھی فائدہ ہے۔