ماوزے تنگ کے لانگ مارچ کے ذریعے چین میں عوامی انقلاب برپا ہوا اور وہاں عوامی حکومت کا ظہور ہوا اس لانگ مارچ کے دوران اس کے ہزاروں شرکاء بھوک بیماری اور تھکن کے ہاتھوں موت کا شکار ہو گئے تھے 1949 میں اس لانگ مارچ کے نتیجے میں چین میں جو کمیونسٹ پارٹی بر سر اقتدار آئی۔ وہ آج بھی اپنی کامیابی کے سفر پر رواں دواں ہے انیس سوانچاس سے لے کر تا دم تحریر چین کی حکومت نے ہر شعبہ زندگی میں حیرت انگیز عوام دوست پالیسیوں کا اجرا کیا جس سے چین میں بسنے والے لوگوں کا نہ صرف معیار زندگی بلند ہوا بلکہ کروڑوں لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے وہ اس لکیر سے باہر نکل آئے ہیں۔ ان کامیابیوں کے بعد کون بھلا ایسا فرد ہو گا جس کو چین کے اندر رائج نظام حکومت پر رشک نہ آتاہو ایک عام انسان کو اس سے کیا مطلب ہے کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت ہے یا صدارتی نظام اس کا اطمینان تو اس بات میں ہے کہ سڑک پر گھر کے باہر اور گھر کے اندر اس کی عزت محفوظ ہو اس کو دو وقت کی باعزت روٹی ملتی رہے بیماری کی صورت میں اس کو دوائی ملے اس کے سفر کیلئے مناسب ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہو اور اس کے بچوں کیلئے تعلیم کا مناسب انتظام، جہاں تک ملک میں جمہوریت کا تعلق ہے تویہ آج تک اس بات پر بھی متفق نہیں ہوسکیں کہ ملک میں ایک ایسا الیکشن کا نظام رائج ہو کہ جس میں دھاندلی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔توہم نے بات شروع کی تھی چین کے لانگ مارچ کی اور وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی اب آئیے ذرا اس بات کا ایک سرسری جائزہ لے لیتے ہیں کہ 1949 سے لے کر آج تک جو لوگ چین کے حکمران رہے ہیں ان کی سوچ کیا تھی اور چین کے عام آدمی کی اچھائی کے بارے میں وہ کس طرح سوچتے تھے ماو زے تنگ کے کامریڈوں میں ڈینگ ژیاؤپنگ ایک بہت بڑا نام تھا جس کی دیانت داری اور عوام دوستی ضرب المثل ہے وہ 1926ء سے ہی چین کی ورکنگ کلاس کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے ان کہنا تھا کہ جب تک آپ لوگوں کا معیار زندگی بلند نہیں کریں گے آپ یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ آپ سوشلزم کی نشونما کر رہے ہیں چین کے موجودہ صدر اپنی سوانح عمری میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہوتے ہیں۔ 1960ء کے دوران میں نے بطور کسان سات سال تک کام کیا کیا ان دنوں میں غاروں کے اندر مٹی پر سویا کرتا تھا اور جس علاقے میں کام کرتا تھا وہاں کے رہنے والے نہایت غریب تھے اور ان کو کئی کئی مہینے کھانے کیلئے گوشت نصیب نہیں ہوتا تھا اس علاقے کا نام لیان جاہی تھا اور وہ مغربی چین میں واقع تھا آج جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ اس علاقے میں پکی سڑکیں اور اینٹوں کے مکان بن گئے ہیں اور انٹرنیٹ سروس بھی وہاں کے لوگوں کو میسرہے اور لوگوں کو میڈیکل انشورنس بھی دی جا رہی ہے اور بڑے بوڑھوں کو پنشن بھی مل رہی ہے اور ان کے بچوں کیلئے اعلی تعلیم کا بندوبست بھی کر دیا گیا ہے تو میں نہایت خوش ہوتا ہوں ہم نے چالیس سال سے کم عرصے میں اپنی معیشت کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا دیا ہے ہم نے ایک اعشاریہ تین ارب لوگوں کو خوراک کپڑے اور زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کردی ہیں‘ مشہور چینی لیڈر ڈینگ نے نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہمیں سو برس تک اپنی موجودہ روش پر چلنا ہوگا تب کہیں جا کر ہم اس پٹری پر چڑھ سکیں گے کہ جس پر ہم چڑھ کر اپنے ملک سے عدم مساوات کا خاتمہ کر سکتے ہیں یہ بات قابل غور بھی ہے اور قابل رشک بھی کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی 88 ملین افراد پر مشتمل ہے اور اس کے تحت 4.4 ملین ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ پارٹی چین کے 1.3 ارب لوگوں کی خدمت پر مامور ہے اس سیاسی پارٹی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اسے نہایت منظم طریقے سے بطور سیاسی پارٹی چلایا جا رہا ہے اور اس کے مختلف کیڈرز میں سخت قسم کے ڈسپلن کی آپ کو واضح جھلک نظر آتی ہے۔ چینی کیمونسٹ پارٹی کے بانی مبانیوں کا یہ یقین ہے کہ اگر کسی سیاسی پارٹی کے ارکان خود دیانت دار‘ عوام دوست اور محنتی نہ ہوں گے تو ان سے بھلا کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام الناس کو درست کر سکیں گے۔ اس پارٹی نے اپنے ہاں ایک سخت قسم کا خود احتسابی کا نظام قائم کر رکھا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے سرکاری اداروں میں کرپشن براے نام ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپٹ افراد کو اتنی سخت سزا دی جاتی ہے کہ وہ عبرت کا نشان بن جاتا ہے مثال کے طور پر کرپشن ثابت ہونے پر کرپٹ افراد کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔چین کے روایتی اور قدیمی اقدار میں فیملی سسٹم کی نشونما پر نہایت زور دیا گیا ہے بڑے بوڑھے کی جتنی عزت چین کے معاشرے میں کی جاتی ہے شاید ہی آج دنیا کے کسی اور معاشرے میں کی جاتی ہو ماو زے تنگ‘ چوئن این لائی اور دوسرے چینی رہنما فیملی کلچر کونہایت اہم سمجھتے تھے 1949 سے لے کر آج تک چینی حکام جن چیزوں پر سب سے زیادہ فوکس کرتے ہیں وہ ہے تعلیم‘ صحت‘سوشل سیکورٹی‘ فوڈ سیفٹی اور نئی نئی ملازمتوں کی فراہمی۔ انہوں نے اپنے طرز عمل سے تعلیم کے میدان میں مساوات قائم کر کے اسے سوشل مساوات کا درجہ دے دیا ہے۔