ترجیحات کا تعین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہمارے وزیراعظم صاحب کی بنفس نفیس شرکت اتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی ان کی موجودگی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں ضروری ہے۔ مانا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب اپنے فرائض منصبی کما حقہ نبھا رہے ہیں پر آج اس خطے کے کئی مسائل اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ان پر غور و خوض کیلئے وزیراعظم کی سطح پر پاکستان کی نمائندگی ہر بڑے فورم پر نہایت ضروری ہے پاکستان کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنائے اور اسی طرح چین اور روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں ہمیں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ طویل تعطل کے بعد روس کے ساتھ ہمارے تعلقات نارمل ہو رہے ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ اس خطے میں حالات کا عمل دخل یا بدلتے ہوئے زمینی حقائق کا ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ بھارت افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا ہوا ہے سیاسی مبصرین کے خیال میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ جلد یا بدیربھارت طالبان حکومت کو تسلیم کرہی دے گا بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اس نے 1947 سے لے کراب تک افغانستان کے اندر اپنی حمایت میں جو لابی بنائی ہوئی ہے اور وہاں کی نوکر شاہی اور بعض سیاسی حلقوں کے اندر جو اپنا اثر و نفوذ پیدا کیا ہوا ہے اس سے وہ یکسر دستبردار کر دیا جائے ہمیں تو بالکل یاد نہیں پڑتا کہ1947  سے لے کر آج تک افغانستان کے ساتھ جہاں تک بھارت کے تعلقات کا تعلق ہے وہ اس قدر کشیدہ اور غیر یقینی ہوئے ہوں کہ جتنے آج کل ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے خصوصا مودی کے بھارت میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت مکمل طور پر امریکہ کی جھولی میں جا بیٹھا ہے کہ جو گزشتہ 20  برسوں سے افغانستان میں خون کی ہولی کھیل رہا تھا اور جس نے طالبان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں بھارت اس وقت سخت مخمصے کا شکار ہے کیونکہ اگر وہ امریکہ کے اشارے پر چین کے خلاف امریکہ کا بطور فرنٹ سٹیٹ کردار ادا کرتا ہے تو یہ سودا اسے بہت مہنگا پڑ سکتا ہے افغانستان اور چین کا آپس میں ایکا ہو رہا ہے اور افغانستان میں ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کے ترقیاتی منصوبے شروع ہونے کے بعد افغانستان اور چین آپس میں قریب آجائیں گے افغانستان میں طالبان کی حکومت کسی صورت بھی اب بھارت کی کسی چال میں نہیں آئے گی کیونکہ اب اس کا مفاد کافی حد تک چین کے ساتھ وابستہ ہونے جا رہا ہے میانمار(برما)میں روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں نے جو علم بغاوت بلند کر دیا ہے اس کی وجہ سے بھارت کی کئی ریاستیں مثلا میزو رام ناگا لینڈ وغیرہ بھی انتشار کا شکار ہو رہی ہیں۔ بھارت اس زخم کو چاٹ رہا ہے جو اسے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر طالبان کے بیان کی وجہ سے لگا ہے وہ طالبان کے اس بیان پر بھی پریشان ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو آئندہ کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیں گے۔بھارت نے افغانستان میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کئی ترقیاتی منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے کہ جس کا مستقبل بھی اسے اب تاریک نظر آ رہا ہے۔ادھر اقوام عالم بڑی باریک بینی سے افغانستان کی نئی حکومت کے ہر اقدام کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ طالبان کے مفاد میں بھی ہے اور افغانستان میں بسنے والے پہلے عوام کے مفاد میں بھی کہ جتنا جلدی ہو سکے وہ افغانستان میں مقیم تمام قومیتوں کو حصہ بقدر جثہ کے حساب سے حکومت میں نمائندگی دیں‘ تعلیم کو عام کریں اور ایسی معاشی اور صنعتی پالیسی اپنائیں کہ جن سے چھوٹی موٹی اشیائے صرف اور اشیاے خوردنی کیلئے افغانستان کا ہمسایہ ممالک پر انحصار ختم ہو جائے۔