سابق افغان صدر اشرف غنی کے افغانستان سے فرار ہونے کے واقعہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔امریکہ کے ساتھ یارانہ رکھنے میں ایک خرابی ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ مشکل کی گھڑی میں وہ ان حکمرانوں سے بے وفاہی کرتا ہے جنہوں نے اس کے ساتھ وفا کی ہوتی ہے وہ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتا ہے وہ جمہوریت کا راگ تو الاپتا ہے پر اندرون خانہ اسے جمہوریت سے کوئی خاص دلی لگاؤ نہیں، حکمران جس طرح سے بھی ملک پر مسلط ہو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا پر اگر کسی بھی ملک میں وہ اس وزیر اعظم کو برداشت نہیں کرے گا کہ جو اس کے اشارے پر نہ ناچتا ہو بھلے وہ جمہوری انداز سے اقتدار میں کیوں نہ آ یا ہو۔ ایک وقت فلپائن کے صدر مارکوس نے بھی کہ جو امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا اپنے دور حکومت میں اپنی ذاتی تجوریاں دل کھول کر بھریں پر جب وہ عوامی عتاب کا شکار ہوا تو وہی امریکہ کہ جس کا وہ کبھی منظور نظر تھا اس نے اس سے ایسی آ نکھیں پھیریں کہ جیسے وہ اسے جانتا ہی نہ ہو اس کے پاس اپنے ملک کے خزانے سے جو لوٹے ہوئے اربوں روپے تھے وہ اس کے کام نہ آ سکے، سابق افغان نائب صدرامر صالح کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ اس نے بھی امریکی آشیرباد سے گزشتہ بیس برسوں میں بہتی گنگا میں جی بھر کے اشنان کیا ہے۔اسکے گھر سے کئی ملین ڈالر کی رقم اور سونے کی اینٹوں کو افغان بینک نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔کل ان کے ساتھ کیا ہو گا یہ خدا ہی جانے پر انسان مکافات عمل کا کسی نہ کسی دن شکار ضرور ہوتا ہے۔ جلد یا بدیر خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے چونکہ ہم طالبان اور امریکہ کے معاملات کا ذکر کر رہے ہیں تو کیوں نہ اس ضمن میں امریکی ارکان کانگریس کے اس تازہ ترین بیان کا ذکرہو جائے کہ جس میں انہوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے انہوں نے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں اس کا کردار دہرا ہے ان کے اس مطالبے کے جواب میں امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف ہمارے ساتھ تعاون بھی کیا۔ انہوں پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ جب تک افغان طالبان بین الاقوامی مطالبات پورا نہیں کرتے انہیں پاکستان تسلیم کرنے سے انکار کرے امریکی وزیر خارجہ کا مندرجہ بالا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ بہتر ہوگا اگر ہماری حکومت اپنے قریبی ہمسایہ ممالک چین اور روس کے ساتھ اپنے دوستانہ روابط کو مزید مضبوط کرے امریکہ کے وزیر خارجہ کا مندرجہ بالا بیان ایک ڈکٹیشن کے مترادف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے امریکی ڈیکٹیشن کو قبول کرنے سے پہلے بھی انکار کیا ہے اور اب بھی وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں صاف کہہ دیا کہ امریکی انتظامیہ کو زمینی حقائق کا علم نہیں اسلئے وہ پاکستان پر الزمات لگاتی ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کے بیان پر مناسب جواب دیا ہے اور دیکھا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی کریگا۔پر اب یہ ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے راستے جدا ہوگئے ہیں اور پاکستان نے چین، روس اور علاقائی ممالک کے ساتھ جو قریبی سٹریٹیجک تعلقات استوار کئے ہیں یہ بہترین پالیسی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ