بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ

ایک شاعر نے سچ ہی تو کہا ہے کہ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ عالمی اُفق پر بڑی تیزی سے سیاسی حالات بدل رہے ہیں۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا واقع اچانک رونما ہو جاتا ہے کہ جس کے بارے میں پہلے کسی نے  سوچا تک نہیں ہوتا۔ جنرل بپن راوت بھارت کی افواج کے سپہ سالار ہیں وہ ایک سینئر فوجی جرنیل ہیں اگلے روز انہوں نے ایک بیان دیا ہے جس کے جاری ہونے کے دوسرے ہی روز بھارت  کے وزیر خارجہ جے شنکر نے سرکاری طور پر اس سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ پر اس بیان پر طرح طرح کے تبصرے شروع ہو گئے ہیں۔ کیا جنرل بپن راوت کی زبان پھسل گئی تھی یا ان کا یہ بیان ایک سوچی سمجھی سوچ کا نتیجہ تھا؟کیا اس کے پیچھے کوئی شرارت کار فرما تھی اور  اس سے مغربی ممالک کو اشتعال دلانا مقصود  تھا؟ موصوف نے فرمایا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے مسلم ممالک   چینکے ساتھ مل کر مغربی تہذیب سے متصادم ہونے جا رہے ہیں۔ کیونکہ چین پاکستان ایران افغانستان اور ترکی کے نزدیک آتا جا رہاہے اس بیان کو فورا ً  مسترد کر کے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ حکومت ہند اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتی۔گو کہ امریکہ اور فرانس دونوں نیٹو  کے رکن ہیں پر جنرل ڈیگال کے دور سے ہی فرانس اور امریکہ  دل سے آ پس میں کبھی قریب نہیں رہے۔  آ سٹریلیا نے فرانس سے جدید ترین آ بدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیاہوا تھا جو اس نے پچھلے دنوں کینسل کر کے اب  امریکہ سے آ بدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی آ بدوزیں اس نئے عسکری معاہدے کے تحت آ سٹریلیا کو فراہم کی جائیں گی کہ جو حال ہی میں آ سٹریلیا برطانیہ اور امریکہ کے درمیان ہواہے۔ فرانس نے ظاہر ہے اس پر سیخ پا ہونا ہی تھا چنانچہ اس نے ناراضگی کے طور پر امریکہ اور آ سٹریلیا سے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں فرانس نیٹو کا ایک اہم رکن ہے لہٰذا اس نئی صورت حال سے نیٹو پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔  ادھر طالبان کے  اقتدار میں آ نے  کے بعد جلال آباد میں اگلے روز  دھماکے ہوئے ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ بارودی مواد سڑک کے کنارے نصب کیا گیا تھا زخمیوں میں عام شہری شامل تھے گو کہ ابھی تک کسی تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی اس بات کو  سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ بعض قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے افغانستان میں بد امنی کی فضا کو ختم ہونے نہیں دیتیں۔افغانستان کی عبوری حکومت  نے اگلے روز اپنے ملک کیلئے نیا آئینی اساسی ڈھانچہ جاری کیا  ہے‘ 40نکات پر مشتمل اس ڈھانچے میں پشتو اور دری کو سرکاری زبانیں ڈکلیئر کیا گیا ہے۔ ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ افغان آئینی ڈھانچے میں کہا گیا ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکار اسلامی شریعت کے احکامات کے تحت اپنے مذہبی عقائدِ انجام دینے میں آزاد ہیں ملک کی خارجہ پالیسی کا محور اسلامی شریعت پر ہوگا افغانستان کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور انصاف یکساں طور پر میسر ہو گا۔تمام ممالک کے ساتھ حل طلب معاملات پر امن طریقے سے حل ہوں گے افغانستان کا کوئی بھی حصہ بیرونی حکومتوں کے تابع نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔نئی افغان حکومت دھیرے دھیرے اہم معاملات کو نمٹانے میں مصروف ہے اور اپنے طرز عمل سے یہ بھی ثابت کررہی ہے کہ وہ عالمی برداری کے ساتھ چلنے کی خواہشمند ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کوتنہائی میں دھکیلنے کی بجائے اس کے ساتھ روابط رکھنے میں ہی دو طرفہ بھلائی ہے۔