نوجوانوں کے مسائل

پاکستان جسے 1980ءکی دہائی میں ’ڈاکٹروں اور انجینئروں کی سرزمین‘ بھی کہا جاتا تھا اب ایک اہم چوراہے پر کھڑا ہے اور کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کی اصل طاقت اس کے انسانی سرمائے میں ہے۔ تیس سال سے کم عمر کی چونسٹھ فیصد آبادی کے ساتھ‘ پاکستان عالمی سطح پر نوجوانوں کی سب سے بڑی آبادی کا گھر ہے جسے اکثر ”یوتھ بلج“ بھی کہا جاتا ہے تاہم یہ اس بے پناہ صلاحیت کے ساتھ کئی چیلنجز بھی جڑے ہوئے ہیں۔ نوجوان آبادی کا یہ بلج (ابھار) اپنے اندر بے پناہ مواقع اور زبردست چیلنجز رکھتا ہے۔ ایک طرف اس میں اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے تو دوسری طرف اگر م¶ثر طریقے سے انتظام نہیں کیا گیا تو یہ معاشرتی اور معاشی مسائل کو بڑھا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی مجموعی شرح 6.2فیصد ہے جبکہ 2023ءمیں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ کر تقریباً 10.8 فیصد تھی۔ مزید برآں ادارہ شماریات (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اکتیس فیصد سے زیادہ نوجوان تعلیم‘ روزگار یا تربیت سے وابستہ نہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کی کوششیں جیسا کہ وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کو قرض اور ہنر مندی فراہم کی جا رہی ہے لیکن یہ کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ گلوبل نالج انڈیکس 2022ءمیں پاکستان 137 ممالک کی فہرست میں 134ویں نمبر پر تھا۔نوجوان میں مایوسی تیزی سے پھیل رہی ہے خاص طور پر معاشی دبا¶ اور مہنگائی عروج پر ہے۔ نئی ٹیکس پالیسی نے تنخواہ دار طبقے، خاص طور پر بارہ لاکھ سے چوبیس لاکھ روپے سالانہ کمانے والے نوجوان پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی صورت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے جنہیں اب بیس فیصد ٹیکس شرح کا سامنا ہے یہ شرح گزشتہ مالی سال کے دوران بارہ فیصد تھی۔ اقتصادی سروے 2023-24ءمیں بتایا گیا ہے کہ سال 2023ءمیں انتہائی ہنر مند پیشہ ور افراد کی نقل مکانی میں 119فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف سال 2024ءکے پہلے چند ماہ میں سات لاکھ سے زائد پاکستانی‘ جن میں زیادہ تر نوجوان ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین شامل ہیں‘ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یہ نقل مکانی سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہے‘ جو پاکستان کو اہم انسانی سرمائے سے محروم کر رہی ہے اور تعلیم میں ریاست کی خاطر خواہ سرمایہ کاری کی وجہ سے ایک اہم مالی نقصان کی نمائندگی کرتی ہے۔ نوجوان آبادی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور برین ڈرین کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کو کثیر الجہتی نقطہ¿ نظر اپنانا ہوگا۔ سب سے پہلے‘ حکومت کو تعلیم‘ خاص طور پر ایس ٹی ای ایم کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کرنا چاہئے تاکہ نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے ضروری مہارتوں سے لیس کیا جا سکے۔ پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کو مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھی بڑھایا جانا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کسی بھی پھلتی پھولتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بے روزگاری کو کم کرنے کے لئے مالی ترغیبات‘ بیوروکریٹک رکاوٹوں میں کمی اور نوجوان کاروباری افراد کے لئے جامع تربیتی پروگرام ضروری ہیں۔ موجودہ ٹیکس نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت اپنی جگہ محسوس کی جا رہی ہے جس میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے اور تاریخی طور پر کم ٹیکس والے شعبوں کو شامل کرنے کے لئے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس سے نوجوانوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نوجوان پروفیشنلز کو انتہائی ضروری ریلیف ملے گا اور مجموعی طور پر معاشی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔سب سے زیادہ ضرورت برین ڈرین کو روکنے کی ہے۔ نوجوان تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ حکومت کو تمام شعبوں میں شفافیت اور اہلیت (میرٹ) یقینی بنا کر نظام پر اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ خاص طور پر ٹیکنالوجی اور زراعت میں تحقیق اور ترقی کے مراکز کے قیام سے نوجوانوں کو اُن کی اہلیت کے مطابق کام کرنے کا موقع مل سکے گا اور اس سے غیر ملکی ماہرین کو بھی پاکستان کی جانب راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ جدت طرازی کو فروغ دینے کے لئے ان مراکز کو یونیورسٹیوں اور صنعت کے ساتھ مربوط کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کے نوجوان اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ نوجوانوں کے ابھرنے اور دماغی تنزلی کی بنیادی وجوہات پر قابو پا کر اور ٹارگٹڈ پالیسیوں کے نفاذ سے پاکستان اس ڈیموگرافک چیلنج کو معاشی ترقی اور سماجی ترقی کے طاقتور انجن میں تبدیل کر سکتا ہے اور فیصلے کی یہ گھڑی عملی اقدامات کی متقاضی ہے کیونکہ قوم کا مستقبل آج کے نوجوانوں پر منحصر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بسما رفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)