پولیو مہمات اُور خلل

تحریک .... آل یاسین


پولیو مہمات اُور خلل


پاکستان میں صحت عامہ کو لاحق خطرات میں شامل ’پولیو‘ نامی مرض ہے جس کا شکار ہونے والے کم سن بچے عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔

پولیو کے خلاف ’عالمی عزم‘ کے نتیجے میں یہ مرض صرف دو ممالک (پاکستان اُور افغانستان) میں پایا جاتا ہے اُور اگر انسداد پولیو مہمات میں بہرصورت کامیابی کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہ کئے گئے تو اندیشہ ہے کہ پاکستان سے ’بین الاقوامی سفری پابندیاں‘ عائد کر دی جائیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ اُس کے ہاں ’پولیو وائرس‘ پھر سے اپنی جگہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی ہیلتھ کیئر ایجنسیوں نے بار بار پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لئے لاپرواہی سے گریز کرے لیکن اِس انتباہ کے باوجود بھی نہ صرف پچھلے سال پولیو کیسز میں اضافہ دیکھا گیا بلکہ انسداد پولیو کے لئے کی جانے والی ویکسینیشن (ٹیکہ جاتی) مہمات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مسلسل سماجی اور سیاسی ہلچل نے ویکسینیشن کوششوں کو متاثر کیا ہے‘ خاص طور پر خیبر پختونخوا کے چند ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو مہمات کامیابی سے مکمل نہیں ہو رہیں۔ انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے آئندہ عام انتخابات سے قبل‘ عام انتخابات کے دوران اور عام انتخابات کے بعد ’پولیو پروگرام‘ میں ممکنہ خلل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پولیو کے خلاف عوام میں غلط فہمیاں اُور سازشی نظریات پائے جاتے ہیںجس کی وجہ سے ویکسینیشن مہمات جیسی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

حکومتوں اور صحت کے حکام کی جانب سے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں ناکامی اور حکومت کی تبدیلیوں کے بعد پروگراموں کے ہموار تسلسل کو یقینی بنانے میں ناکامی نے انسداد پولیو مہمات کی کامیابی کو مزید سست (متاثر) کر رکھا ہے۔ پولیو کے قطرے پلانے والوں اور ان کے ساتھ آنے والے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر مسلسل حملوں کا چیلنج اپنی جگہ موجود ہے جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ’پولیو پروگرام‘ کو حالیہ عرصے میں مضبوط سیاسی حمایت سے کچھ فائدہ ضرور ہوا ہے اُور نگران حکومت کو یہ رفتار برقرار رکھنی چاہئے۔
....