شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ اُردو کے مشہور شاعر حکیم مومن خان مومن کا نام سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے رکھا تھا۔ 5 جون اس عظیم المرتبت انسان اور امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ کے بڑے فرزند کا یوم وفات ہے‘ 5جون کو مومن خان مومن نے ان کی وفات پر کہا تھا۔
انتخابِ نسخہئ دیں، مولوی عبدالعزیز
بے عدیل وبے نظیر و بے مثال و بے مثل
دستِ بے دادِ اجل سے بے سروپا ہوگئے
فقر ودیں، فضل وہنر، لطف وکرم، علم وعمل
اخباری کالم میں یہ بات نہیں سمائی جا سکتی کہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد اٹھارہویں صدی میں مسلمانان ہند پر کیا اُفتاد پڑی۔ تاریخ کے طلباء یہ تفصیل جانتے ہیں مگر میں مجموعی تاثر کے لئے یہاں حضرت شاہ ولی اللہ(رح) کا یہ قول نقل کروں گا، فرمایا: ”جس معاشرے میں اقتصادی توازن نہ ہو، وہاں طرح طرح کے روگ پیدا ہو جاتے ہیں“ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ جیسے نابغہئ روزگار اس دور میں پیدا ہوئے اور آپ کواللہ تعالیٰ نے روحانی تصرفات اور علم وادب کی ایسی بے پناہ قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا جس کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ آپ ایک کثیر الجہت شخصیت تھے‘ آپ کے دور میں اُردو زبان عہد طفولیت سے نکل کر برگ وبار دکھا رہی تھی۔ آپ کے والد ماجد اُردو زبان ومحاورے سیکھنے کے لئے آپ کو خواجہ میر دردؔ کی محفل میں بھیجا کرتے تھے۔ آپ کی اُردو دانی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ابراہیم ذوقؔ جیسے اساتذہئ فن آپ سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کے ”ملفوظات“(ترجمہ پروفیسر عضدالدین خان) میں ہے ”کہ نوجوانی میں مجھے عربی فارسی کے ساٹھ ستر ہزار اشعار یاد تھے“ آپ کے ادبی ذوق پر مشہور نقاد ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کشف وکرامات کی بے پناہ رحمتوں سے نواز تھا اور جن کی تفصیل پڑھ کر انسان کو حیرت ہو تی ہے کہ ایسے کشوف اور کمالاتِ باطنی تو قرونِ اولیٰ کے اولیائے کرام کے تھے۔ ان روحانی فیوض و کمالات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت بالغ نظر، دور اندیشی اور کمال درجے کی سیاسی حکمت وبصیرت بھی عطا فرمائی تھی۔ اس کالم کا اصل مقصد اِسی ایک نکتے کی طرف اشارہ ہے۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے دراصل ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس پر آج تک تفصیل سے کسی نے تحقیق نہیں کی ہے۔ مؤرخین نے چند مضامین ضرور لکھے ہیں مگر انہوں نے ماضی کے اس عظیم کارنامے کا حال کے واقعات سے کوئی ربط اور تسلسل قائم نہیں کیا ہے 1803ء میں دہلی پر انگریزوں کا تسلط ہوا۔ بادشاہ سقوطِ دہلی کے بعد انگریزوں کا وظیفہ خوار ہوا۔ بالکل جیسے آج ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مقروض ہیں۔ شاہ صاحب نے اس موقع پر ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ ظاہر ہے کہ اس فتویٰ کے بعد لازمی طور پر مسلمانوں کے لئے ہجرت اور جہاد فرض ہو جاتے مگر آپ نے مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس فتویٰ کے لازمی نتائج میں اجتہاد کرکے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی مشکل سے بچایا۔ آپ نے اس طرح کے اجتہادی فیصلوں سے اس وقت کے بے یارومددگار اور غم زدہ مسلمانوں کی مذہبی معاشرت کو بکھرنے سے بچایا۔ سرسید احمد خان لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کے زمانے میں ہر کوئی وعظ گوئی، درس وتدریس اور فتویٰ نویسی نہیں کرتا تھا۔ جب تک شاہ صاحب سے اس کی اجازت نہ لے۔ اس شکست خوردہ اور یاس انگیز دور میں شاہ صاحب نے جہاں مسلمانوں کی اجتماعی ہیئت کو قائم رکھنے کی کوشش کی وہاں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ آئندہ کے لئے آزادی کی تیاری کرلیں۔ شاہ صاحب نے ایسا کھل کر نہیں کہا مگر ایسا فتویٰ دیا جس کا لازمی نتیجہ آنے والے دور میں آزادی ہی کا نکلتا تھا۔آپ کے بعد علمائے دہلی اور تحریک سید احمد شہیدؒ اور علمائے دیوبند کے مساعی دراصل آپ ہی کے شاگردوں اور خلفاء کے کارنامے ہیں۔کیا موجودہ اسلامی معاشرے بالخصوص پاکستان کو اِیسے مجتہد العصر اور مجدّدِ زمانہ کی ضرورت نہیں؟ رہے نام اللہ کا۔