رمضان المبارک میں سیاستدانوں کوآرام کرنے کا موقع فراہم ہوا تاہم آہستہ آہستہ سیاسی اٹھکھیلیاں شروع ہونے لگی ہیں اس وقت اہم سوال پی ڈی ایم کے مستقبل کاہے بظاہرتوپی ڈی ایم اپنے وجود کو پہلے کی طرح قائم نہیں رکھ سکی ہے البتہ مولانافضل الرحمن اس معاملے پر بڑے محتاط اندازمیں بات کرتے ہیں وہ اب بھی پرامیدہیں کہ پی ڈی ایم قائم رہے گی پی ڈی ایم میں چارپانچ بڑی سیاسی پارٹیاں تھیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جے یوآئی اوراے این پی قابل ذکر ہیں اورگزشتہ وقت میں پی ڈی ایم نے بڑے بڑے سیاسی اجتماعات بھی کئے اورپاکستان میں پہلی مرتبہ مضبوط اورفعال متحدہ اپوزیشن قائم ہوئی ملک کے سنجیدہ سیاسی عناصرنے پی ڈی ایم کوبچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارے۔اب ملکی سیاست عجیب وغریب دورمیں داخل ہوچکی ہے۔ اس سیاسی ہلہ گلہ میں شوگرسکینڈل نے بھی سیاست میں گرماگرمی پیداکی کل کے دوست آج ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ جہانگیرترین کے خلاف مقدمات کھولنے پر ان دونوں کے مشترکہ دوست بڑے پریشان ہیں اور اب تک ان سابقہ دوستوں کی صلح کرانے میں کافی تگ ودوکرچکے ہیں لیکن بات اس لئے نہیں بن سکی کہ وزیراعظم عمران خان مفاہمت کیلئے راضی نہیں ہورہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف مقدمات میں وہ کسی کی طرف داری نہیں کریں گے اور اب تازہ ترین پیش رفت کے مطابق جہانگیر ترین گروپ کھل کر پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں سامنے آیا ہے اور الگ نشستوں کا مطالبہ بھی کرچکا ہے۔پچھلے دنوں ایک عجیب اتفاق ہوا کہ سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اپنی ہی جماعت کے خلاف بیان داغ دیا اوراس موقع پر پی ڈی ایم نے بھی ہلچل کی اورمولانافضل الرحمن سے میڈیانے پوچھاکہ پی ڈی ایم کامستقبل کیاہے تو مولاناصاحب چونکہ سیاست میں جذبائیت کو جگہ نہیں دیتے اس لئے انہوں نے میڈیا والوں کی تسلی کروائی کہ پی ڈی ایم کے مستقبل کا فیصلہ حلیف جماعتیں مل کرکریں گی بہرحال یہ حقیقت بڑی تلخ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جو چپقلش ہوئی اس نے سیاسی حلقوں کے اتحاد کی خواہش رکھنے والوں کو ضرور مایوس کیا ہے۔لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی گرما گرمی بڑھ سکتی ہے اور اس حوالے سے حزب اختلاف اور حکومت دونوں بھرپور تیاری کی حالت میں ہے تاہم ضروری ہے کہ سیاسی داؤ پیچ آزمانے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل کو بھی سامنے رکھا جائے اور عوام کو درپیش مشکلات کو ختم کرنے کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی جائے۔