بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا

 رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی با برکت ساعتوں سمیت تیسرے عشرے میں داخل ہو چکا ہے جس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی شدت سے دامن گیر ہے کہ جن عبادتوں اور ریاضتوں کا یہ ماہ مقدس متقاضی ہے ان کی انجام دہی ممکن نہیں ہو سکی اور کون جانتا ہے کہ اگلے سال جب رمضان کریم آئے گا تو کس خوش قسمت کو اسے دیکھنا نصیب ہو گا ا سی لئے ہر روزہ دار کوآخری عشرے میں ایک بے نام سی اداسی بھی گھیرے رکھتی ہے چند ہی برس پہلے ہم پشاور کے کچھ دوست گھنٹہ گھر کے ایک چائے خانے کے پاس تراویح سے فارغ ہو کر بیٹھا کرتے تھے میں ان دنوں گنج میں رہتا تھا،نذیر تبسم کا گھرچائے خانے کے بالکل ہی سامنے مینا بازار میں تھا‘ مل بیٹھنے کے محرک ہمیشہ حسام حر ہی ہوا کرتے تھے پھر دوست ساتھ ملتے گئے، صلاح الدین، سعید پارس،جمیل نو شاہی، ساجد سرحدی سمیت کچھ دوست تو مستقل ارا کین میں سے تھے جب کہ آتے جاتے اور ایک آدھ قہوے کے ساتھیوں میں پبی کے دوست عزیز اُس وقت کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین،کچھ صحافی دوست اور حال ہی میں بچھڑنے والے گنج کے معروف فوٹو گرافر لالا محمد انور بھی تھے،یہ اکٹھ سحری تک قائم رہتا اور اس دعا کے ساتھ آخری نشست اختتام کو پہنچتی کہ اللہ کرے ہم اگلے رمضان میں بھی اسی طرح اکٹھے ہوں مگر وقت کا اپنا ایک مزاج ہے ایسے ہی ایک رمضان میں جب ہم اکٹھے ہوئے تو صلاح الدین اور ساجد سرحدی کی طرح کے جگری دوست ہمارے درمیاں نہیں تھے کچھ عرصہ بعد نذیر تبسم، حسام حر اور میں گل بہار شفٹ ہو گئے اور پھر خواہش اور کوشش کے با وجود وہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ البتہ حسام حر کے گھر ہونے والی ہر ہفتے کی پر رونق ادبی نشست ’ملاقات‘ کئی برس تک اس تشنگی کو کم کرتی رہی مگر بوجوہ وہ باب بھی بند ہو گیا‘پشاور کے قلم قبیلہ سے جڑے ہوئے دوستوں میں سے بہت کم دوست اس طرح کی نشستوں کے لئے دستیاب ہوا کرتے ہیں اس لئے کسی کو ’ملاقات‘ ختم ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑا اس پر مستزاد سوشل میڈیا کی بیٹھک کھل گئی تو یار لوگوں نے اسے ہی مستقل ٹھکانہ بنا لیا، لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرح کا کوئی ایسا ادبی مرکز بھی پشاور میں نہیں ہے جہاں احبا ب شام کو مل بیٹھ سکیں‘اگر چہ اب لاہور کے دور دراز علاقوں کے رہنے والے دوست بھی ادبی تقاریب کے لئے تو ضرور وہاں پہنچ جاتے ہیں تاہم گزشتہ کل کی طرح ہر شام پاک ٹی ہاؤس جانا اب ان کے لئے ممکن نہیں رہا کیونکہ بقول احمد مشتاقؔ ”اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے“، انیس سو اسی کی دہائی میں جب یونیسکو کے زیر اہتمام ایک ادبی ورکشاپ کے لئے مجھے دو ہفتے لاہور رہنا پڑا تو پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے ہم سب نوواردان ِ ادب ہر شا م پاک ٹی ہاؤس جاتے جہاں ادب کے سارے معتبر اور قد آور لوگوں کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے کاموقع ملتا رہا، ابھی رمضان المبارک سے ہفتہ پھر پہلے ماہنامہ تخلیق کے مدیر سونان اظہر جاوید اور شاعرہ و افسانہ نگار تسنیم کوثر کی دعوت پر تخلیق ایوارڈ ز کی تقریب کے لئے لاہور گیا ارادہ یہی تھا کہ تقریب کے بعد لوٹ آؤں گا،بس ٹرمینل سے دوست عزیز اور معروف شاعر و مدیر سہ ماہی کارواں وماہنامہ بیاض لاہور نوید صادق کے گھر پہنچا جہاں سے جواں فکر شاعر اکمل حنیف کی ہمراہی میں تقریب کے لئے روانہ ہوا تو نوید صادق نے ان سے کہہ دیا کہ تقریب ختم ہوتے ہی مجھ سے رابطہ کرنا میں نے کہا مجھے واپس جانا ہو گا کہنے لگے جی ایسا ہی ہو گا مگر ایسا ہوا نہیں اور اکمل حنیف مجھے لے کر بحریہ ٹاؤن کے ایک کافی ہاؤس ’’کافی پلینٹ“ لے آئے نوید صادق بھی وہیں آ گئے اور انہوں نے جانے پہچانے شعراء سجاد بلوچ اور منظر اعجاز کو بھی فون کر کے بلا لیا، فون پر رابطہ تو میرے دل کے بہت ہی قریب شاعر دوست ڈاکٹر یونس خیال سے بھی ہوا مگر ان کی طبیعت ناساز تھی وہ نہ آ سکے اور جس کا قلق ہم دونوں کو رہا، لاہور کی شام میں خنکی گھلی ہوئی تھی مگر احباب نے گرم کافی کے سپ لیتے ہوئے کھلے آسمان تلے ادبی گاسپ کا سلسلہ دراز کیے رکھا اور اگر کسی دوست کے (نام نہیں بتاؤں گا) موبائل فون پر اْس کو اس کے گھر سے باہر رہنے کے ویزہ ختم ہونے کی اطلاع نہ ملتی تو کسی کو علم بھی نہ ہو پاتا کہ نصف شب کب کی بیت چکی ہے بھیگی بھیگی رات میں گھر پہنچے تو نوید صادق سے کہا کہ وہ صبح جاب پر جاتے ہوئے مجھے بس ٹرمینل پر چھوڑتے جائیں، انہوں نے حامی بھر دی مگر صبح یاد دلایا تو رات گئی بات گئی کہتے ہوئے انہوں نے کہہ دیا کہ بہتر ہو گا کہ سفر رات میں کیا جائے یوں بھی میں نے غلام حسین ساجدؔ کو کہہ دیا ہے کہ سہ پہر کو ہم ان کی طرف تھوڑی دیر کے لئے جائیں گے وہاں سے واپسی پر آپ کو پشاور کے لئے بس میں بٹھا دوں گا اب غلام حسین ساجد سے ملنا تو بجائے خود ایک ادبی سرگرمی ہے نفیس شخصیت کے مالک غلام حسین ساجد سے تین چار مہینے پہلے امریکا میں ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نیو جرسی سے اور وہ غالباً پنسلوینیا سے ایک ہی دن ہیوسٹن کے ائر پورٹ پہنچے تھے تقریب بہر ملاقات مشترکہ دوست اور ہیوسٹن کی جانی پہچانی شاعرہ اور اینکر فرح ڈی اقبال کے شعری مجموعہ ’عجیب سی چپ‘ کی رونمائی اور چند مشاعرے تھے۔ فرح اقبال سے پہلی ملاقات شاعر و افسانہ نگار ڈاکٹر عامر بیگ کے ہاں اس وقت ہوئی تھی جب وہ حلقہ ارباب ذوق پسکاٹ وے (نیو جرسی) کے زیر اہتمام ڈاکٹر عامر بیگ کی کتاب ’محبت استخارہ ہے‘ کی رونمائی کی تقریب کی نظامت کرنے آئی تھیں پھرایک بار شکاگو کے عالمی مشاعرہ میں ملے مشاعرہ کے دوسرے دن عابد رشید جب مجھے،راشد نور،حمیرا گل تشنہ اور فر ح اقبال کو شکاگو کی سیر کراتے ہوئے مشی گن جھیل لے گئے تھے وہاں ہم نے ایک بھر پور دن اکٹھے گزارا تھا ہیوسٹن میں غلام حسین ساجد ؔ کے ساتھ بھی ملاقاتیں رہیں اور ان ہی کی وجہ سے میری ملاقات معروف و مقبول شاعر احمد مشتاقؔ سے بھی ہوئی تھی وہ ان سے ملنے ہمارے ہوٹل آئے تھے، یہ انہونی غلام حسین ساجد کی وجہ سے ہی ہونی ہوگئی تھی ورنہ احباب جانتے ہیں کہ احمد مشتاق کا مزاج قطعاً مجلسی نہیں ہے کبھی شعری نشست میں شرکت کرتے ہیں نہ ہی کسی دوست سے ملتے ہیں لیکن اپنے پرانے دوست غلام حسین ساجد کا سن کر نہ صرف خود ملنے آگئے بلکہ ہمیں ایک بہت اچھے ریستوران میں ظہرانہ بھی دیا، اس لئے جب نوید صادق نے غلام حسین ساجد کے ہاں جانے کو کہا تو واپسی کے سفر کو مؤخر کر لیا اور وہاں پہنچے تو خوشی دو چند ہو گئی کیونکہ انہوں نے دوستان ِ عزیز پروفیسر ڈاکٹر شاہد اشرف اور ڈاکٹر جواز جعفری کو بھی بلا رکھا تھا ایک بار پھر ایک بھر پور ادبی نشست کی سر شار ی نے وقت گزرنے کا پتہ ہی چلنے نہ دیا اور رات دیر سے پر تکلف عشائیہ کے بعد دوستوں سے رخصت ہوا، پشاور کے دوستوں کے اکٹھ سے بات ہوتے ہوئے لاہور کے احباب تک جا پہنچی تاہم اب جب کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی با برکت ساعتوں کے ساتھ تیسرے عشرے میں داخل ہوچکا ہے اور اب تک پشاور سے محض اباسین آرٹس کونسل کے صدر عبد الرؤف روہیلہ کے گھرہی حسب روایت افطار اکٹھ کی اطلاع ہی ملی ہے۔ باقی احباب سر دست منقار زیر پر ہیں۔احمد فرازؔ یاد آ گئے۔
 منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
 بات کر، تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا