ایران گیس پائپ لائن معاہدہ

پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کم و بیش ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے، جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاہدے کوجلد عملی شکل ملے تاکہ ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ ہو۔ ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ایران اس خطے کی اہم قوتیں ہیں، دونوں ملک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے کی مددکرسکتے ہیں، خصوصاً ایران کے پاس توانائی وافر مقدار میں ہے جبکہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، پاکستان ایران سے گیس اور تیل لے کر توانائی کی قلت پر قابو پاسکتا ہے تاکہ پاکستان کو توانائی کے جس بدترین بحران کا سامنا ہے اس سے نکل سکے۔ایران برادر ہمسایہ ملک، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے پاکستان کا انتہائی اہم دوست ہے ، دونوں ممالک کے مابین کئی جہتیں یکساں ہیں، باہمی سطح پر مزید بہتر مستقبل اور عوامی خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور 1965ءکو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے طیاروں کو محفوظ بنانے کےلئے اپنے ہوائی اڈے پاکستان کی تحویل میں دے دئیے تھے۔ایران پاکستان دو برادرملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض50کروڑ ڈالر ہے جو کہ بہت کم ہے ۔ دوطرفہ بنکاری کے قیام سے تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کی معیشت کوفائدہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت ایران کو چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات بر آمد کرنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان ایران دو ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کی گنجائش وسیع پیمانے پر موجود ہے۔اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی خوش حال ہوں گے۔جبکہ ایرانی صدر نے سی پیک میں شامل ہونے کے لئے گہری دلچسپی کا اظہاربھی کیاہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔یاد رہے کہ ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر چینی صدر سے ملاقات میں بھی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔پچھلے دنوں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیاگیاتھا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔جبکہ پاکستان نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔یہی بات چینی سفیر نے بھی کہی کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔یاد رہے کہ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کا ترقیاتی کام کی ذمہ داری چین کی ہے۔اس لئے ا ب ضروری ہے کہ پاکستان اور ایران معاشی تعلقات کو مضبو ط سے مضبوط تر کرلیں تاکہ خطے میں ترقی اور خوشحالی کا سفر تیز ہو اور دونوں ممالک کے عوام اس سے مستفید ہوں۔ جہاں تک پاکستان کی توانائی کی کمی کو پورا کرنے کا معاملہ ہے تو اس میں ایران کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے تیل اور بجلی دونوں شعبو ں میں پاک ایران شراکت انقلابی اثرات کی حامل ثابت ہوسکتی ہے۔اس وقت دیکھا جائے تو دنیا میں علاقائی معاشی بلاکس بننے کا عمل وقوع پذیر نظر آرہاہے اور اسکی مثالیں جنوبی ایشیاء، افریقہ اور یورپ ہر جگہ ملتی ہیں۔اگر پاکستان، ایران ، افغانستان ، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر معاشی بلاک تشکیل دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ خطہ عالمی معاشی سرگرمیوں کا مرکز نہ بنے۔ چین نے جس طرح سی پیک اور دیگر ممالک کو ملانے والے منصوبوں کا ایک جال بچھا لیا ہے تو یہ علاقے کے ممالک کیلئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور آپس میں معاشی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔