ان برسرزمین حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ انتہائی تناؤ‘ گرماگرمی اور کشمکش کا شکار ہے‘ صرف نظر اس حقیقت سے بھی نہیں کہ ملک کی معیشت کھربوں روپے قرضوں تلے دبی ہے‘ ان قرضوں سے متعلق اعدادوشمار کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف دو سال میں غیر ملکی قرضے کے حجم میں 6 ہزار489 ارب روپے کا اضافہ نوٹ ہوا ہے قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ کی جانب سے ملکی و غیر ملکی قرضوں سے متعلق پیش کردہ تفصیلات کے مطابق 2020ء میں صرف ملکی قرضہ23ہزار283 ارب تھا جو2022ء میں 31ہزار ارب روپے ہوگیا‘ قرضوں سے متعلق پیش کردہ اعدادوشمار کی روشنی میں ہر پاکستانی شہری 2لاکھ16ہزار روپے کا مقروض ہے‘ جہاں تک تعلق غیر ملکی قرضوں کا ہے تو ذمہ دار دفاتر سے حاصل تفصیلات کے مطابق جون2020ء میں غیر ملکی قرضہ 13 ہزار116 ارب روپے تھا جبکہ دسمبر2022ء میں یہ قرض19 ہزار605 ارب روپے ہوگیا‘دوسری جانب وزارت خزانہ کے جاری اعدادوشمار کے مطابق دسمبر2022ء میں سرکاری قرضے کا والیوم52 ہزار721 ارب روپے نوٹ ہوا ہے‘ اس برسرزمین تلخ حقیقت سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں قرضوں کے حصول کا سلسلہ بدستور جاری ہے ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کیلئے دوسرا قرضہ اٹھانا مجبوری بن چکا ہے‘ حد تو یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرضے کے حصول میں تاخیر سے صورتحال پریشان کن ہوچکی ہے‘ انکار اس سے بھی نہیں کہ ملک میں توانائی کا بحران ہے اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ آبی ذخائر ضرورت کے مطابق نہ ہونے پر نہ صرف یہ کہ سستی بجلی پیدا نہیں کی جا سکتی بلکہ وسیع اراضی سیراب ہونے کی گنجائش سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا‘ اس ساری صورتحال اور اعدادوشمار کی روشنی میں مشکلات کے ساتھ صرف کڑی نگرانی کے موثر انتظام نہ ہونے پر عوام کو گرانی سمیت بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث جن مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے ان کا ازالہ ضروری ہے اس کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر مانیٹرنگ کا انتظام کرنا ہوگا اس انتظام میں اراضی حقائق کے ساتھ سٹیک ہولڈرز کی تجاویز بھی مدنظر رکھنا ہوگی اس سب کیلئے ضرورت وسیع مشاورت کی ہے جس میں ایک دوسرے کا موقف سنا جائے۔
صرف الرٹ کافی نہیں
ذمہ دار سرکاری اداروں کی جانب سے موسم کی صورتحال کے تناظر میں الرٹ جاری ہونا معمول بن چکا ہے یہ الرٹ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آناً فاناً پھیل جاتا ہے یقینا بعض دفاتر اس کی روشنی میں کچھ انتظامات کرتے بھی ہونگے جہاں تک شہری خدمات کے حوالے سے اقدامات کا تعلق ہے تو ہر مرتبہ بارش اور آندھی میں میونسپل اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے اعلانات اور عملی نتائج کے درمیان فاصلوں کا پول کھل جاتا ہے‘ بعدازخرابی بسیار سہی پشاور میں بارشوں کا الرٹ جاری ہونے پر آبی گزرگاہیں کلیئر کرنے کی ہدایت کی گئی جس کا ثمر آور ہونا عملی نتائج سے مشروط ہے اس کیلئے صرف بڑی آبی گزرگاہوں تک کاروائی محدود نہیں رہنی چاہئے صوبائی دارالحکومت میں تمام سیوریج لائنوں کی کلیئرنس ضروری ہے۔