انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے ٹیکس حکام کے اختیارات میں اضافے اور شفافیت کا مطالبہ بھی کیا ہے‘ اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا بھی کہا جا رہا ہے‘ پیش ہونے والی تجاویز میں پی او ایس پر ٹیکس چوری کا جرمانہ 5 لاکھ سے بڑھا کر 50 لاکھ کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آنے والے بجٹ میں سولر پینلز سمیت تمام ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ دریں اثناء آنے والے بجٹ سے متعلق وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لئے ریلیف یقینی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں‘ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی قومی بجٹ کے حوالے سے امکانات اور خدشات پر مشتمل رپورٹس کا سلسلہ جاری ہے‘ وطن عزیز کی اقتصادی شعبے میں مشکلات اور قرضوں پر انحصار کے نتیجے میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطالبات پر عمل درآمد مجبوری بن چکا ہے‘ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پٹرولیم لیوی کا حجم بڑھایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں صارفین کو ایک بڑا دھچکا لگنے کا خدشہ موجود ہے۔ اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ ملک کو اس وقت اقتصادی شعبے میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھائے بھی جا رہے ہیں تاہم یہ ایک طویل المدتی کام ہے‘ اس پورے منظرنامے میں متاثر صرف عام شہری ہے کہ جو سارے ٹیکسوں کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے جبکہ پیداواری لاگت میں اضافے کا لوڈ بھی اسی کو برداشت کرنا پڑتا ہے‘ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی ہو یا قیمتوں میں اضافہ‘ ادائیگی اسی عام شہری کو کرنا ہوتی ہے سوائے تنخواہوں پر عائد ہونے والے ٹیکس کے جو خود تنخواہ دار کو ادا کرنا پڑتا ہے باقی تقریباً ہر ٹیکس عوام پر ہی پڑتا ہے‘ اب عام شہری سے وصول ہونے والا ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع ہی نہ ہو تو یہ الگ سے ایک پریشان کن صورتحال ہے‘ اس سارے آپریشن میں اگر شفافیت پر سوال اٹھے تو یہ بھی ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں‘ حکومت جس ٹیکس کی بابت پوچھ گچھ کرے وہ ادا عوام ہی نے کرنا ہوتا ہے ہر نیا ٹیکس یا پہلے سے عائد ٹیکس کی شرح میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے اس لئے ضرورت اب عوام کو ریلیف دینے کے لئے ٹھوس حکمت عملی کی ہے کہ جس پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔