درپیش حالات اور بڑے فیصلے

وفاقی حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان چھوڑنے کیلئے یکم نومبر 2023ءتک کی مہلت دے دی ہے‘ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی اس حوالے سے منگل کے روز ہونے والی پریس کانفرنس کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق ڈیڈ لائن گزر جانے پر غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کریک ڈاﺅن ہو گا‘ اس بڑے آپریشن میں گرفتاریاں بھی ہوں گی جبکہ جبری ملک بدری کے ساتھ جائیداد اور کاروبار بھی ضبط کر لئے جائیں گے۔ اس ضمن میں طے ہونے والی حکمت عملی میں شامل یہ بھی ہے کہ شک کی بنیاد پر غیر ملکیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہو گا‘ اس سب کے ساتھ حکومت نے 10 اکتوبر سے افغان باشندوں کیلئے تذکرہ کارڈ ختم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس ضمن میں وضع ہونے والے طریقہ کار کے مطابق 31 اکتوبر تک صرف کمپیوٹرائزڈ ای تذکرہ چلے گا جبکہ اس سے اگلے مرحلے میں پاسپورٹ اور ویزا پالیسی نافذ ہوگی۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے سہولت کاروں کیلئے بھی رعایت نہیں ہو گی۔ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والا ایپکس کمیٹی کا اجلاس اپنے ایجنڈے اور فیصلوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ وطن عزیز کو امن کے قیام اور اقتصادی شعبے میں استحکام کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ پاکستان کی معیشت کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے‘ قرضوں کا بوجھ وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ معیشت کی حالت کا اثر ملک کے عوام پر گرانی کی صورت ناقابل برداشت حد تک پڑ چکا ہے ایسے میں اصلاح احوال کیلئے اقدامات میں ضروری ہے‘ سب کچھ قاعدے قانون کا پابند بنایا جائے۔ نگران وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں 17 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں‘ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں جائیدادیں بیچ کر رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کا موقع دے رہے ہیں‘ اس ساری صورتحال اور برسر زمین حقائق متقاضی ہیں کہ اب ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور صورتحال سے بری طرح متاثر عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اس مقصد کیلئے ایسی ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہو گا کہ جس میں ملک کو نہ صرف موجودہ صورتحال سے نکالا جائے بلکہ آنے والے دنوں میں نئے قرضے اٹھائے ہی نہ جائیں‘ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے جس کیلئے امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول یقینی بنانا ہو گا‘ اس ماحول کو یقینی بنانے کیلئے مو¿ثر حکمت عملی کی ضرورت کا احساس کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ ثمر آور نتائج کی جانب بڑھا جا سکے۔