انسانی حقوق کا عالمی دن 

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
انسانی حقوق کا عالمی دن 

انسانی حقوق کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟ ہر سال انسانی حقوق کا دن ہر ’دس دسمبر‘ کے روز منایا جاتا ہے۔ اِس مناسبت سے دن کا انتخاب اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس (سال 1948ئ) میں کیا گیا جب ”انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ“ منظور کیا گیا تھا۔ 
سال 2023ء کے لئے انسانی حقوق کے عالمی دن کا موضوع کیا ہے؟ رواں برس کے لئے انسانی حقوق کے عالمی دن کا موضوع ”آزادی‘ مساوات اور انصاف سب کے لئے“ ہے اُور یہ اِس دن کی ’75ویں‘ سالگرہ کے طور پر خاص موقع ہے کہ دنیا اُن سبھی ناقابل تنسیخ حقوق کا جائزہ لے جو‘ انسان کی حیثیت سے بنا رنگ و نسل‘ مذہب‘ جنس‘ زبان‘ سیاسی یا دیگر رائے‘ قومی‘ سماجی یا ہر قسم کے قطع نظر سب کو حاصل ہیں چونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’انسانی حقوق سے متعلق عالمی اعلامیہ ’دس دسمبر اُنیس سو اڑتالیس‘ کے روز منظور کیا تھا جسے ’پیرس اعلامیہ‘ بھی کہا جاتا ہے اِسی مناسبت سے ہر سال 10 دسمبر کا دن پورے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخی حوالہ بھی ذہن نشین رہے کہ ’10دسمبر 1948ء‘ روز پیرس میں منعقدہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 217-A نے بنا امتیاز دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں اُور تمام اقوام کے حقوق کا ’مشترکہ معیار‘ مقرر کر رکھا ہے۔

International Human Rights Day | SDG Resources
”انسانی حقوق“ کیا ہیں اُور تصور سے جڑی خاص و جامع عالمی اصطلاح سے مراد کیا ہوتی ہے؟ بنیادی طور پر انسانی حقوق سے مراد ”فطری حقوق“ ہیں یعنی کسی بھی شخص سے اُس کی رنگ و نسل‘ قومیت‘ زبان‘ مذہب، یا کسی بھی دوسری حیثیت سے امتیاز نہ برتا جائے۔ انسانی حقوق کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک بنیادی حقوق ہیں جیسا کہ زندہ رہنا اور آزادی کا حق‘ تشدد سے آزادی کا حق جبکہ ضمنی حقوق میں رائے اور اظہار رائے کی آزادی‘ کام کاج اور تعلیم کا حق اور بہت سے دیگر حقوق بھی شامل ہیں۔ 


ذرائع ابلاغ ’اِنسانی حقوق کے فروغ میں کلیدی کردار اَدا کر سکتے ہیں مگر کیسے؟ بطور صحافی ابلاغیات پر عبور رکھنے والے کسی بھی پیشہ ور کو گردوپیش میں رونما ہونے والے حالات کا اِس زاویئے سے بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں کسی وقوعے یا فیصلہ سازی کی وجہ سے انسانی حقوق تو متاثر یعنی دانستہ و غیردانستہ طور پر نشانہ تو نہیں بنائے جا رہے۔ جب انسانی حقوق کے احترام اور اِن کے فروغ کی بات آتی ہے تو یہ ذمہ داری بنیادی طور پر حکومتوں کی ہوتی ہے تاہم انسانی حقوق کے تحفظ‘ اِن کے فروغ اُور اِن کے بارے میں عوامی و خصوصی سطح پر شعور اُجاگر کرنے کی ذمہ داری ذرائع ابلاغ سے جڑے صائب الرائے افراد کی ہوتی ہے۔ بظاہر آسان معلوم ہونے والا یہ کام اپنی فطرت میں انتہائی پیچیدہ اُور قدرے مشکل ہے لیکن اگر انسانی حقوق کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی جائے تو ابتدائی مشکلات دیرپا آسانیوں کا باعث ثابت ہو سکتی ہیں لہٰذا بطور صحافی تحریر و تقریر کے ذریعے روزمرہ کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے اُن سے جڑے انسانی حقوق کو بھی توجہ دینی چاہئے اُور ایسا کرنے کے لئے جن ”10 امور“ کا بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے اُن میں سب سے پہلی ضرورت ”انسانی حقوق کے مسائل پر تحقیق“ ہے۔ انسانی حقوق کو سمجھنے اُور اِس کے فروغ و تحفظ کی عالمی کوششوں کا حصہ بننے سے پہلے ’درپیش مسائل کو سمجھنے کی ضرورت رہتی ہے۔‘ حکومتی فیصلہ سازی کرنے والوں کی نیت یا ارادوں پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بسا اُوقات اُن کے پاس ’درست معلومات کی کمی ہوتی ہے‘ یا ’معلومات تو درست ہوتی ہیں لیکن وہ ناکافی ہوتی ہیں اُور یہیں سے ایک صحافی کا کام شروع ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے انسانی حقوق کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کرے۔ انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین اُور مستند معلومات کے ذرائع میں سرفہرست اُور قابل اعتماد ذریعہ ’اقوام متحدہ‘ کا ہے جس کے درجنوں ذیلی ادارے ہیں۔ یہ ادارے وقتاً فوقتاً اعدادوشمار جاری کرتے ہیں‘ جن تک رسائی کے لئے ویب سائٹس سے رجوع کی جا سکتا ہے۔ بطور صحافی یہ ذمہ داری محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف اخبارات یا جرائد میں شائع ہونے والی معلومات ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اُور اِس جیسے عالمی اداروں کی طرف سے بیان کردہ حقائق اُور صورتحال پر بھی نگاہ رکھی جائے۔


انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے اداروں کو رضاکاروں کی ضرورت ہے جو کسی ملک یا خطے میں بحران کی صورت مختلف طریقوں سے متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ بحران سے متاثرہ افراد کو ادویات‘ کھانا پینا اُور سر چھپانے کے لئے محفوظ عارضی قیام گاہوں سے لے کر اُنہیں تحفظ فراہم کرنے اُور امدادی سرگرمیوں کے لئے عطیات (چندہ) اکٹھا کرنے تک ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاؤہ بحران کی شدت میں اگر کوئی ایک فریق اضافہ کر رہا ہے تو اُس کا ہاتھ روکنے اُور اُس پر عالمی دباؤ ڈالنے میں بھی ذرائع ابلاغ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گردوپیش میں دیکھیں تو ایسی درجنوں غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اِسی مقصد کے لئے متحرک ہوتی ہیں لیکن اِن میں سے بیشتر کو ملنے والے فنڈز کو دانشمندی سے استعمال نہیں کیا جاتا اُور یہی وہ مقام ہے جہاں اقوام متحدہ اُور اِس کے ذیلی اداروں کی نظریں ذرائع ابلاغ پر مرکوز ہوتی ہیں کہ وہ کسی غیرسرکاری تنظیم یا کسی بحران سے متعلق کس قسم کی رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔


ایک عام آدمی انسانی حقوق کے تحفظ کی عالمی کوششوں میں اِس طرح بھی ہاتھ بٹا سکتا ہے کہ وہ اپنی خریداری کی عادات کو تبدیل کرے۔ ایسے ممالک کی بنی ہوئی اشیا یا ایسے تجارتی و کاروباری اداروں سے خریدوفروخت ترک کر کے اُن کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے جو ’انسانی حقوق‘ کو پائمال کر رہے ہیں۔ اِسی طرح جو کاروباری یا تجارتی ادارے محنت کشوں (مزدوروں) کا استحصال کرتے ہیں اُور جہاں کام کاج کے حالات موافق نہیں اُن کا بھی معاشی بائیکاٹ کرکے انسانی حقوق کی عالمی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔


عالمی سطح پر ’انسانی حقوق کی کئی ایک تحریکیں فعال ہیں۔ ایسی کسی ہم خیال تحریک کا حصہ بن کر باشعور اُور حساس ہونے کا عملی ثبوت دیا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاؤہ ’انتخابات (الیکشنز)‘ کے موقع پر بہرصورت ووٹ دینا چاہئے۔ جہاں کہیں بھی عام انتخابات ہوں وہاں انسانی حقوق کے بارے میں شعور رکھنے والوں کے حق میں ووٹ دے کر شعور اُور بیداری میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ عام انتخابات کے موقع پر ووٹ نہیں دیتے‘ وہ نہ صرف اپنے ایک حق سے دستبردار ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ کسی نہ کسی صورت انسانی حقوق کے تحفظ اُور فروغ کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ہر خاص و عام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ”اِنسانی حقوق کی پاسداری کرنے کے لئے ریاستی و حکومتی ذمہ داروں پر دباؤ ڈالیں۔“ اُن سبھی موضوعات کے بارے میں اپنی آواز اُٹھائیں اُور رائے کا اِظہار کریں جو بنیادی یا عمومی اِنسانی حقوق کو کسی بھی طرح متاثر کر رہے ہوتے ہیں۔ 


ہر خاص و عام کو سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ’ہر خاص و عام کے یکساں انسانی حقوق ہیں بالکل اُسی طرح ’عدم مساوات کے خلاف احتجاج‘ بھی انسانی حقوق کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پرامن احتجاج انسانی حقوق کی حمایت کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ (طریقہ) ہے۔ انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ایسے کئی احتجاج اُور مظاہرے تحریر ملتے ہیں جنہوں نے قوانین اُور حکومتی فیصلہ سازوں کی رائے کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ گردونواح میں بھی تبدیلیوں کا باعث بنے۔ احتجاج پرامن اُور بڑا ہونا چاہئے۔ احتجاج جس قدر بڑا ہو گا‘ اُس سے کسی خاص مسئلے پر اتنی ہی زیادہ مقامی‘ ملکی اُور عالمی توجہ مرکوز ہوگی۔


انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ماؤں اور والدین کی مدد کی جانی چاہئے۔ خواتین اور بچے دنیا کے سب سے زیادہ کمزور طبقات (گروہوں) میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ جیسے امیر ممالک میں بھی مائیں اور والدین کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے اُور انہیں وسیع پیمانے پر عدم مساوات اُور وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ انسانی حقوق کے خلاف جب جب اُور جہاں کہیں کوئی ’امتیازی سلوک‘ نظر آئے تو اُس کے خلاف فوری ردعمل (احتجاجی کاروائی) کا اظہار کرنا چاہئے۔ یہ خاص نکتہ ذہن نشین رکھیں کہ جب اُور جہاں کسی شخص کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو درحقیقت اُس کے فطری حقوق کی توہین ہو رہی ہوتی ہے۔ جب نسل پرستی یا جنس پرستی جیسے رویئے اُور عوامل دکھائی دیں تو دیگر عمومی‘ روزمرہ کی مصروفیات ترک کر دینی چاہیئں تاکہ انسانی حقوق کا تحفظ اُور اِن کا فروغ ممکن بنایا جا سکے۔ کسی شخص کے ”معاشی حقوق کی تلفی ہونے کی صورت اُس کی حمایت بھی انسانی حقوق کے تحفظ ہی کے زمرے میں شمار ہوتی ہے بالخصوص جب کام کاج کی جگہوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جائے یا کسی بھی صورت مالی و معاشی حق تلفی ہو تو ایسی صورت میں برداشت یا مصلحت سے نہیں بلکہ مظلوم کی حمایت کی جانی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ معاشی حقوق کا فقدان بھی تشدد کا باعث بنتا ہے اُور اِسی کی وجہ سے اِنسانی اِسمگلنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ اُور فروغ کی کوششیں اُس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں جب تک ’اِنسداد غربت‘ کے لئے کی جانے والی کوششیں اجتماعی‘ ہمہ گیر اُور مربوط نہیں ہو جاتیں۔ آئین میں درج انسانی حقوق‘ کام کاج اُور تعلیم کے مساوی مواقع‘ مساوی اجرت‘ تعلیم تک رسائی‘ بچوں کی مفت دیکھ بھال‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی جیسی بنیادی سہولیات بھی ’انسانی حقوق‘ ہی کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔

Human Rights Day 2021: Know about Theme, History, Significance, and Key  Facts here