قصہ ایک مشاعرے کا

مشاعرے کا وقت دو بجے تھااور وہ بھی عین گرمیوں کے شباب کے دنوں میں ‘حیرت ہوئی کہ عزیزی اسلم سعیدی نے قیلولے کے وقت مشاعرہ کیوں رکھ لیا تھا۔خیر ایک بار تو میاں نواز شریف کی ریلی نے مشاعرے میں رخنہ ڈال دیا ،سڑکیں بند اور ٹریفک جام ہونے کے سبب مشاعرے میں نہ جانے کا معقول بہانہ میسر تھاکہ مشاعرہ پنجاب پبلک لائبریری کے ہال میں منعقد ہونا قرار پایا تھا۔ میں خوش تھا چلو مسئلہ حل ہوا مگر چند روز قبل دوبارہ فون پر اسلم سعیدی کی آواز تھی ،میں اس روز نہ آنے کی معذرت کرنے ہی والا تھا کہ وہ بول پڑا ‘نہیں ڈاکٹر صاحب ‘وہ مشاعرہ ہم نے ملتوی کر دیا تھا‘ اب دوبارہ ہو رہا ہے ۔آپ حسبِ وعدہ تشریف لائیں۔ صدارت پر آپ کا نام چھپ چکا ہے۔اب کسی بہانے کی کوئی گنجائش نہ تھی ‘مشاعرے کے ہال میں داخل ہوا تو اسی لمحے آغاز ہو چکاتھا سٹیج پر پنجاب میں لائبریریوں کے سربراہ ظہیر الدین بابر بھی مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لا چکے تھے ان کے ہمراہ نامور شاعر اقبال راہی‘ اعظم توقیر‘ سیاسی شخصیات میں ارشد نجم اورڈپٹی مئیر بھی بیٹھ چکے تھے۔ہم بھی سیدھا اپنی نشست پر بٹھا دئےے گئے تلاوت اور نعتیہ کلام سے مشاعرے کا آغاز ہو چکا تھا ،جشن ِآزادی کی تقریبات چونکہ سارے اگست میں جاری رہتی ہیںلہٰذا اسلم سعیدی نے آزادی کے حوالے سے اشعار پیش کئے ‘ سامنے حاضرین پر نگاہ پڑی ‘کئی احباب تشریف فرما تے تھے ‘تاثیر نقوی ‘دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے ۔ تاثیر نقوی کی رہائش گاہ قریب ہی بھگوان سٹریٹ کی بغلی گلی میں ہے آج کل وہ ادب کے لئے وقت نکال لیتے ہیں ، ہال بھرا ہوا تھا اور مجھے اِسی ہال کا پرانا منظر یاد آ گیا برسو ں پہلے کاوہ مشاعرہ عاشق راحیل کی تنظیم کا سالانہ مشاعرہ تھا اور ہال میں تقریباً ایک سو پینتیس شعرا تھے ۔مجھے بابا لنگیاں والا بھی یا د آیا اور بابا محمد دین منیر بھی ۔جو اِن مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ‘ بابا محمد دین منیر اچھرہ میں ایسا ہی ایک بڑا مشاعرہ بر پا کرتے‘ جس کے پوسٹر چھاپ کر وہ خو د اپنے ہاتھوں سے دیوار پر لگایا کر تے تھے یہ مشاعرو ں کا دور تھا‘ ۵۸ءکا زمانہ تھا‘ مشاعروں میں لوگ آخر تک بیٹھ کر مشاعرہ سنتے تھے ‘عاشق راحیل کا سالا نہ مشاعرہ چونکہ طویل ہوتا تھا سو آخری نشستوں پر بیٹھے کئی بزرگ نیند کا لطف بھی لے لیا کرتے اور پھر جب کسی شعر پر داد کا شور پڑتا تو جاگ کر واہ واہ کرنے میں دوبارہ شامل ہو جاتے اسی ہال میں منعقدہ ا س سالانہ مشاعرے کے آخر میں حلیم کی دیگ اور سینکڑوں نان منگوائے گئے اور شاعروں کی تواضع کی گئی تھی ‘احمد لطیف نے نان حلیم کھاتے ہوئے اطہر ناسک کو انار کلی میں دودھ بالائی والی چائے پینے کا آئیڈیا پیش کیا تو افضل عاجز اور باقی احمد پوری نے فوری تائید کر دی‘ یوں کھانے سے فراغت کے بعدکئی دوست ہمراہ چل دیئے۔ ہائے کیا دور تھا ۔اس وقت رات گئے بیٹھے ہوئے کسی ذہن میںسکیورٹی کے خطرات کبھی نہیں آتے تھے۔(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................