پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹوزرداری نے سیاسی جماعتوں کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔ چیئر مین پیپلز پارٹی، جو ان دنوں اندرون سندھ کے اضلاع میں رابطہ عوام مہم پر نکلے ہوئے ہیں نے گزشتہ روز سکھر میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت ہر کسی کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں اور یہی میراق اعتراض ہے۔ سیاست میں لیول پلینگ سے مراد اگر سبھی سیاسی جماعتوں کیلئے کام کرنے کے یکساں مواقع ہے تو یہ مطالبہ برمحل اور جمہوری منشا کے عین مطابق ہے۔ جمہوریت کی بدلیاں مخصوص چھتوں پر نہیں برستیں ۔ جمہوریت سیاسی شراکت داروں میں تفریق کی قائل نہیں۔ چونکہ قومی سطح پر ہم اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ جمہوری طرز حکومت ہی ہمارے لیے بہترین ثابت ہو سکتا ہے؛ چنانچہ یہ ہماری قومی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس معاملے میں خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ایسا ماحول تشکیل دیں جس میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکے۔ خود سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔ انہیں اس اعتماد کی سخت ضرورت ہے کہ سیاست میں مدمقابل جماعتوں کیساتھ اینٹ روڑے کا بیر روا نہیں۔ سیاسی اختلاف در حقیقت حل کی تجاویز اور نظریے کے اختلاف پر مبنی ہوتے ہیں ورنہ اصولی طور پر سبھی جماعتوں کا رخ ایک ہی منزل کی جانب ہوتا ہے۔ اگر اس منزل تک پہنچنے کے راستوں پر اختلاف پیدا ہوتو یہ شخصی عناد اور ذاتی دشمنی کی حدوں کو نہیں پہنچنا چاہئے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا ہی ہے۔ سیاسی حلقوں میں بلاشرکت غیرے کھیلنے کی خواہش پر قابو نہیں پایا جا سکا، مگر یہ رویہ جمہوری سوچ کا آئینہ دار نہیں ۔ یہی لیول پلیئنگ فیلڈ میں پہلی بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کے ان پہلوﺅں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ ملک عزیز پون صدی مکمل کر چکا ہے۔ اتنا وقت کسی قوم کو اپنی سمت متعین کرنے کیلئے کم نہیں ہوتا، مگر ہماری قومی پیش رفت کو دیکھا جائے کہ ہم ابھی تک انہی مسائل سے نمٹ رہے ہیں جن کا سامنا قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی کرنا پڑ گیا تھا۔ اس دوران ہمارے ارد گرد کی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اعتماد کا تقاضا تو یہ ہے کہ قومی رہنما زیادہ محتاط اور قومی ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ کریں۔ جہاں تک لیول پلیئنگ فیلڈ کے نہ ہونے کی شکایت کی بات ہے تو سیاسی جماعتوں نے یہ حالات خود ہی پیدا کیے ہیں اور اب خود ہی ان کو سنوار سکتی ہیں۔ جب سیاسی قائدین میں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا وصف پیدا ہوگا تو سمجھئے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ پیدا ہو چکا۔ یہ رعایت کسی سے طلب کرنے کے بجائے سیاسی قیادت کو خود یہ فضا پیدا کرنے کیلئے غور و فکر اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کسی اچھی چیز کی اہمیت کا بہترین اندازہ اس کی کمیابی یا نایابی کے حالات میں ہوتا ہے؛ چنانچہ سیاسی بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے اور سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ تیار کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ سیاسی قیادت میں سے شاید ہی کوئی فریق ایسا ہو جو آج کے حالات پر مطمئن دکھائی دے۔ جب قومی سطح پر ہیجان کی کیفیت ہوگی تو سیاسی طبقات مطمئن ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ لہٰذا کیوں نہ اس بحرانی صورتحال سے فائدہ اٹھا ئیں اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنیوالے انتخابات سے قبل ایسی سیاسی زمین بنا ئیں جو انتخابات کے نتائج کی قبولیت کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہماری وابستگی جمہوریت کے ساتھ ناگزیر ہے اور اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ تاہم جموریت کے استحکام میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے ۔اگر وہ ایک دوسرے کیلئے کھلے دل کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کی رائے کو وقعت دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جمہوری روئیے پروان چڑھیں اور اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے جس کا نتیجہ معاشی استحکام کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔