یوگنڈا وسطی مشرقی افریقہ کاملک ہے‘ رقبہ 2 لاکھ41ہزار 38 کلو میٹر یعنی پاکستان کے صوبہ پنجاب سے کچھ زیادہ ہے‘ 84 فیصد عیسائی اور13 فیصد مسلمان شہری ہیں‘1962ءمیں برطانیہ سے آزادی ملی‘ مشرق میں کےنیا‘ مغرب میں کانگو‘ شمال میں جنوبی سوڈان اور جنوب میں تنزانیہ واقع ہیں‘ فی کس آمدنی2566 ڈالرسالانہ یعنی بدحالی کے باوجود پاکستان کے شہریوں سے زیادہ ہے‘ جنگلات‘ پہاڑ اور جنگلی جانور ملک کا اثاثہ ہےں‘ یوگنڈا کے لوگ شکاری ہیں اور خواہ یہ جو بھی کام کرتے ہوں شکار کرنا لازمی سمجھتے ہیں‘ ملک کا صدر ہو یا مزدور ہر کچھ دن بعد بندوق یا تیرکمان لے کر نکل پڑتا ہے اور کوئی نہ کوئی جانورمار کر ہی لوٹتا ہے‘ملک میں لاقانونیت ہے اپوزیشن ہمہ وقت جیلوں میں اور حکمران خرمست رہتے ہیں‘
شہریوں کا غائب ہونا بھی معمول ہے اور پولیس اور عدالتیں بھی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہیں لیکن جہاں انسانوں کا قتل بڑی بات نہیں وہاں جنگلی جانوروں کو مارنا خلاف قانون ہے اور پکڑے جانے پر وزیروں مشیروں سے لے کر مزدوروں تک کو سزائیں ہوتی ہیں‘ مثلاً یکم جون کو بونڈی کے نیشنل پارک سے سیاحوں کا ہر دلعزیز گوریلا رفیقی اچانک غائب ہوگیا ‘حکام ڈھونڈ ڈھونڈ کر تک گئے لیکن رفیقی کا کچھ پتہ نہ چل سکا‘2جون کو پارک کے ملازمین کو رفیقی کی مسخ شدہ لاش ایک پہاڑ کے دامن میں جھاڑیوں سے مل گئی‘ رفیقی کو مارنے والے نے اسکی انتھڑیاں تک نکال لی تھیں‘ گلا بھی کاٹا گیا تھا ‘تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں تو پورے ملک میں کہرام برپا ہوگیا
‘حکومت تنقید کی زد میں آئی تو قاتلوں کی تلاش کا حکم ہوا‘ پارک کے سی سی ٹی وی کیمرے نکالے گئے توچاقو‘ چھریوں‘تیرکمانوں اور بندوقوں سے لیس چار شکاری عقبی جنگلا پھلانگتے ہوئے پائے گئے‘ تلاش ہوئی تو قاتل گرفتارکرلئے گئے‘ ان میں سے فلیکس نامی شخص نے اعتراف جرم کرلیا ‘فلیکس نے بتایا گوریلے نے اس پر حملہ کردیا تھا اس لئے اسے قتل کرنا پڑا تاہم دیگر تین ملزموں نے بتایا کہ فلیکس نے جان بوجھ کر گوریلے کو قتل کیا‘ ملزمان سے آلہ قتل بھی برآمد کرلیاگیا‘ مجسٹریٹ نے سماعت کی اور صرف25دن میں کیس کا فیصلہ سنادیا‘ فلیکس کو11سال قید ہوئی وہ اب دارالحکومت کمپالا کی جیل میں ہے‘ اب مملکت خدادا کو دیکھئے پاکستان میں جانور انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں‘ ہمارا قومی جانور مارخور صرف دو ڈھائی درجن ہی رہ گئے ہیں ایف آر پشاور کے پہاڑوں میں چیتے موجود ہیں جن کو مارنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے‘
ایبٹ آباد کے پہاڑوں میں شیر موجود ہیں لیکن ان کو بھی بے دردی سے مارا جاتا ہے‘ سائبیریا سے پرندے آتے ہیں تو ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی بندوقیں اور جیپیں لے کر نکل پڑتے ہیں اور سو سو پرندے مار کر تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتے ہیں ہمارا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ شکار کے لائسنس جاری کرتا ہے اور پیسے افسران خود کھا جاتے ہیں مارخور کے شکار کا لائسنس40 لاکھ روپے کا ہے لیکن مجال ہے کہ ان40لاکھ میںسے4روپے بھی مارخور پر خرچ ہوتے ہوںحتیٰ کہ ہمارے چڑیا گھروں کیلئے آنے والے جانور بھی بیچ دیئے جاتے ہیں اور افسران ان جانوروں کا چارہ اور کھانا بھی بیچ کھاتے ہیں اور آپ انسانوں کا حال بھی دیکھ لیں پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں
لیکن ان پانچ ہزار میں سے صرف 2فیصد قاتلوں کو سزا ہو پاتی ہے اور آپ دیکھ لیں ان دنوں میڈیا میں ایک اور کیس کا بھی چرچا ہے جس میں ایک پولس کانسٹیبل کو بھی گاڑی تلے روندا گیا اور سی سی ٹی وی کیمروں سے ریکارڈنگ اور موقع پر گرفتاری کے باوجود ملزم کو عدم ثبوت کی بناءپر چھوڑا گیا‘ یعنی موقع پر گرفتاری اور سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ سے بھی جرم ثابت نہ ہو سکا ‘آپ پولیس کی تفتیش دیکھئے یہ ناکامی کی شاہکار ہے یعنی اپنے پیٹی بند کا دن دیہاڑے قتل بھی پولیس ثابت نہ کر سکی ‘ہمیں اب یقین کرلینا چاہئے ہمیں مان لینا چاہئے ہم صرف بڑھکیں مارنے کیلئے بیٹھے ہیں ہم صرف مہذب ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن ہم یوگنڈا سے بھی گئے گزرے ہیں۔