کپٹرے شپٹر ے

میرے ایک بہت ہی اچھے دوست ہیں ¾پروفیسر جاوید فرض کرلیں ¾ وہ کسی زمانے میں خیبر میڈیکل کالج میں طالبات کے ہاسٹل کے وارڈن تھے ¾ایک قصہ سنارہے تھے کہ جب خیبر میڈیکل کالج میں یونیفارم نافذ ہوگیا تو ایک بچی کی والدہ ان سے شکریہ ادا کرنے آئی تھیں کہ بچی کی یونیفارم محض ایک قر مزی رنگ کی قمیض اور سفید شلوار کی وجہ سے ا±ن کی زندگی کتنی آسان ہوگئی تھی ¾ یہ خاتون نئی نئی قمیضوں کے خرچے سے مبرّا بات کررہی تھیں۔اللہ کا شکر ہے ہمیں کوئی مالی مشکل حائل نہیں اور اگر ان کی بیٹی چاہے تو روزانہ نت نئے فیشن کے کپڑے پہن سکتی ہیں

 

تاہم روزانہ کئی گھنٹے محض نئے فیشن کی تقلید کی نظر ہوجاتے تھے۔ پیسوں کا ضیاع الگ سے تھا تاہم سب سے بڑی بات بچّی کی توجہ مطالعے سے زیادہ نت نئے فیشن پر مبذول ہوتی تھی۔ تو شکریہ کہ آپ نے میڈیکل کالج میں یونیفارم متعارف کروادیا”۔ یہ بات مجھے یوں یاد آئی کہ ابھی حال ہی میں خیبر میڈیکل کالج کے پرنسپل صاحب نے یونیفارم کی پابندی ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ اس پر طالبات کو خصوصاً پریشانی ہونے لگی۔ پرسوں پھر ایک طالبہ مجھ سے کہنے لگیں کہ سر میری روم میٹ ہفتے میں تین چار قیمتی اور نئی قمیضیں خریدنے کے قابل ہے اور وہ روزانہ کالج تیاری کے دوران میرے لئے احساسِ کمتری کی وجہ بنتی ہے کہ میری مالی حیثیت اتنی نہیں کہ اس کا مقابلہ کرسکوں۔مجھے اس دوران طالبات کی اس ا±لجھن کا پتہ چلا۔ معلوم ہوا کہ طلبہ میں بھی ڈیزائنر کپڑوں کا کسی حد تک مقابلہ ہوتا ہے

 

لیکن طالبات یعنی نوجوان خواتین کیلئے موت اور زندگی کا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ میں تو اسے شادی کی تقریبات تک محدود ایک قباحت سمجھا تھا۔ ایک شادی کے دوران مختلف تقاریب کیلئے خواتین نت نئے کپڑوں کیلئے جو تردد کرتی ہیں یہ شاید صرف ہماری ہی تہذیب تک محدود ہے اور نہ صرف شادی کے گھرانے پر مالی بوجھ ثابت ہوتی ہے بلکہ مہمان خواتین کیلئے بھی ایک امتحان ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم روزمرہ کے کالج یا یونیورسٹی کیلئے باقاعدہ یونیفارم کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہے کہ طلبہ اور خاص طور پر طالبات کیلئے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی تھی بلکہ والدین کی کمر پر مالی بوجھ بھی کم ہوجاتا تھا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ہماری ذہنی توانائی کا ایک بہت بڑا حصہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے میں خرچ ہوتا ہے خواہ وہ روزمرّہ کا کوئی کام ہی کیوں نہ ہو۔ کپڑوں کا انتخاب ہی دیکھ لیجئے۔ آپ اپنے معمول سے یہ فیصلہ نکال دیں یعنی دو تین قسم کے میچ کردہ لباس منتخب کر لیجئے جو آپ بار بار پہن سکیں۔ آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے کاموں میں کارکردگی بڑھنے لگے گی۔

 

اگر آپ دنیا کے امیر ترین افراد کی مثال لیں خواہ وہ بل گیٹس ہو، مرحوم سٹیو جابز ہو یا فیس بک کے مارک زوکربرگ۔ انہوں نے اپنی پہچان ہی ایک رنگ کے ٹی شرٹ اور جینز سے بنائی ہے۔ ان کو ویسے بھی اربوں ڈالر کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔میں اپنے آپ کو خوش لباس لوگوں میں شمار کرتا ہوں لیکن مجھے بہت پہلے یہ پتہ چل گیا تھا کہ ہمیں بزعمِ خود ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا لوگ ہماری پہچان ہی کپڑوں سے کرتے ہیں ورنہ حقیقت میں کسی کو بھی یہ یاد نہیں ہوتا کہ کل میں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یوں میں نے بھی ہفتوں تک ایک ہی شرٹ اور پتلون میں ہسپتال جانا شروع کیا۔ میرے دوستوں اور ساتھیوں میں سے کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ پھر کورونا کی وبا ءشروع ہوئی تو مجبوراً ہسپتال کے یونیفارم یعنی سکربز کا سہارا لینا پڑا۔ گزشتہ چھ ماہ میں میرا معمول یہی رہا ہے کہ صبح سکربز پہن کر ہسپتال تشریف لے گئے۔

 

واپس آکر ہسپتال کے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالے، ٹریک سوٹ پہن لیا جس میں جیم بھی گئے اور واپس آکر انہی میں سوگئے۔ صبح پھر سے صاف سکربز ہیں اور ہم ہیں۔ یوں ان چھ ماہ میں اگر میں نے نئے کپڑے لئے بھی تو سکربز کے زیادہ آرام دہ ڈیزائن کے ملے تو۔ اس سے ہماری زندگی یوں آسان ہوئی کہ پہلے کبھی نہ تھی۔ میرے وہ دوست جو بلاناغہ کلین شیو کرنے میں مشہور تھے، ماسک کی وجہ سے انہوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔ جوتوں کے سلسلے میں پہلے ہی چلنے میں آرام کو فیشن پر ترجیح دیا کرتا تھا۔ اس لئے اب میرے گزشتہ چھ ماہ کی ملکیت صرف سکربز کے اور ٹریک سوٹ کے دو دو جوڑوں اور جوتوں کے ایک آرام دہ جوڑے تک محدود رہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں زیادہ اور برطانیہ میں کم، لیکن وہاں بھی ہسپتال کا سٹاف عموماً صرف سکربز میں ہی سارا ہفتہ گزارتے ہیں۔

 

انہی معمولات کو مدّنظر رکھتے ہوئے مجھ سے متعدد والدین اور خیبر میڈیکل کالج کی طالبات نے رابطہ کیاہے کہ کالج کی انتظامیہ سے درخواست کی جائے کہ یونیفارم کی پابندی ختم نہ کریں تاکہ طلبہ فیشن کی بجائے صرف مطالعے اور تربیت پر وقت صرف کرسکیں۔ پروفیسر محمود اورنگزیب ایک نہایت ہی قابل اور محنتی ٹیچر ہیں۔ وہ نہ صرف جنرل سرجری میں نفاست سے چاقو چلانے میں مشہور ہیں بلکہ عام زندگی میں بھی ایک نفیس انسان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس معمولی سقم کو دور کرنے میں طلبہ اور طالبات کا سائڈ لیں گے۔ ویسے طلبہ خود بھی ایک مہم چلاسکتے ہیں کہ اگر ان پر سے یونیفارم کی پابندی ہٹائی جارہی ہے تو ساتھ ساتھ یونیفارم پہننے پر کوئی پابندی تو نہیں۔ اس لئے وہ بدستور یونیفارم ہی پہن کر آیا کریں۔ میڈیکل کے طلبہ اور طالبات کو دوسرے شعبوں کی نسبت پہلے پبلک ریلیشن میں آنا پڑتا ہے۔ اس لئے ان کو زیادہ پختہ ذہن ہونا چاہئے اور کپڑوں سے بالاتر ہوکر اپنے مطالعے، دوسرے تعمیری مشاغل میں وقت صرف کریں۔ میڈیکل کے طلبہ نہایت ہی زیادہ دباﺅ میں ہوتے ہیں۔ کئی ایک طلبہ تو ڈیپریشن کی انتہا ءمیں چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو جسمانی ورزش بہت فائدہ دیتی ہے۔ ان کو دن میں کم از کم تیس سے ساٹھ منٹ تک ورزش کیلئے وقت نکالنا چاہئے۔