اردو کے جریدی ادب میں صبح بنارس اور شام اودھ کا بڑا ذکر آتا ہے دہلی کی بات آجا ئے تو پھو ل والوں کی سیر کا ذکر ہوتا ہے پشاور کے با سیوں کے لئے صبح پشاور کی اہمیت صبح بنا رس سے کم نہیں‘ آج اگر چہ معا شرتی اقدار اور اسلو ب میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں تاہم پشاور کی صبح بھو لنے والی چیز نہیں‘بہت ساری تبدیلیوں کے باوجود ایک منظر آج بھی بر سوں کی طرح میری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے‘صبح کی اذان کے بعد مسجد کے لئے گھروں سے نکلنے والے بزر گوں کے ہاتھوں میں شیردان ہوتے ہیں‘تانبے اور پیتل کے خو ب صورت شیردانوں میں ہر گھر کا بزر گ نا شتے کے لئے دودھ لیکر جا تا ہے‘ 1970ء کے عشرے کا وہ منظر اب بھی یا د ہے جب اذان سے پہلے جاروب کش جھاڑو لیکر آتے تھے اور سڑک کے دونوں طرف جھا ڑو دیتے تھے اس کے بعد کوڑا کر کٹ والا ہتھ ریڑھی لیکر آتا تھا کوڑا کر کٹ کو اٹھا یا جا تا تو ماشکی آتا اور سڑک کے دونوں طرف چھڑ کاؤ کرتا تھا اگر چہ ماشکی اب نہیں رہا تا ہم دوسرے کا رندے مو جود ہیں مگر کام کا وہ وقت اور طریقہ اب نہیں رہا، وقت کے ساتھ نظم و ضبط عنقا ہوا، مگر یہ تو ہر شہر کی کہا نی ہے پشاور کے ساتھ اس کی خصوصی نسبت کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ پا کستان کے بڑے شہروں میں اذان فجر کے ساتھ صبح نہیں ہو تی شہری اتنے
سویرے با ہر نہیں نکلتے، اتنی جلدی شہر جا گتا ہوا نظر نہیں آتا یہ پشاور کی خصو صیت ہے کہ اذان صبح کے ساتھ ہی دن کا آغاز ہوتا ہے‘1970ء کی دہا ئی میں مسجد کے ساتھ سرائے اور سما وار بھی صبح پشاور کے تکون میں شا مل تھے‘سرائے سے نکلنے والے مسا فر چائے خا نوں کا رخ کر تے‘پختہ چائے فروش سما وار سے ابلتا ہوا پانی چینی کے چینکوں میں ڈال کر چائے پکا تے، تندوری روٹی اور با لائی کے ساتھ مہما نوں کو پیش کر تے‘ چائے خا نے کی فر شی نشست کسی خان کے حجرے کی طرح پر کشش ہوا کر تی ہے، بیس یا پچیس مہمانوں میں سے چار پانچ کے ہاتھوں میں اخبار ہوتے جو اپنی ٹو لی کو اخبار کی سر خیاں پڑھ کر اپنے فطری ردعمل کے ساتھ سنا تے‘مثلاً صدر آج رات قوم سے خطاب کرینگے، اس خبر پر پڑھنے والے کا رد عمل ہوتا‘ہو نہہ یہ دیکھو پھر ایک اور جھوٹ بولے گا، ہاہا ہا‘ٹو لی کے باقی سامعین کھلکھلا کر ہنس پڑتے،انگریزوں کے دور میں پشاور کے چائے خا نوں میں ہونے والی گفتگو کی رپورٹ روزانہ انگریز گورنر جار ج کننگھم کو پیش کی جا تی تھی‘ وہ اس کو قصہ خوا نی گزٹ کا نا م دیا کر تے تھے، مشہور مورخ ٹائن بی نے پشاور کے چائے خا نوں کا ذکر بڑے دلنشین انداز میں کیا ہے صبح پشاور کی ایک خا ص بات یہاں کے با سیوں کی زندہ دلی سے وابستہ ہے‘ 1970ء کے عشرے میں صبح سویرے ہشت نگری اور ملحقہ گلیوں کے ادھیڑ عمر کے بزرگ اور نو جوان ٹو لیوں کی صورت میں نکلتے تھے‘ چاچا یونس پارک میں ورزش کر کے دن کا آغاز کر تے تھے‘ اس طرح آسامائی گیٹ اور کچہری گیٹ سے پشوریوں کی ٹو لیاں جنا ح پارک کا رخ کیا کر تی تھیں کچھ بانکے نو جوان ایسے بھی ملتے تھے جو شہر سے نکل کر صدر کے وسط تک پیدل چل کر خا لدبن ولید باغ کا رخ کر تے تھے‘بابائے پشاور ڈاکٹر سید امجد حسین نے اپنی کتاب چترا ں والا کٹورہ میں 1950ء کے عشرے کی پشاور گردی کا ذکر مزے لیکر کیا ہے یہ وہ دورہے جب آتش نے جوا نی کی دہلیز میں قدم رکھا تھا اور اسلا میہ کا لج میں پڑھتا تھا‘آغا جی لکھتے ہیں اسلا میہ کا لج کے دنوں میں
سراج اور میں صبح سویرے پشاور شہر سے پیدل چل کر صدر جا یا کر تے تھے وہ ڈھکی حمید خان سے میری طرف مسلم مینا بازار کو آتا اور ہم دونوں گھنٹہ گھر کی طرف سے کچہری روڈ سے ہو تے ہوئے با لا حصار اور نا رتھ سر کلر روڈ سے گذر کر صدر پہنچا کر تے تھے پون صدی کا عرصہ گذر نے کے بعد حا لات نے نیا رخ اختیار کیا ہے شہر کے با سیوں کی بڑی تعداد یونیور سٹی ٹاؤن، شامی روڈ، حیات آباد اور ڈی ایچ اے منتقل ہو چکی ہے، شہر کے نواح میں قائم نئی بستیوں کے اندر ورزش کرنے والے شہر یوں کے لئے بڑے بڑے پارک اور واکنگ ٹریک بن چکے ہیں‘ پھر بھی سر آسیا، ٹھنڈا کھوئی، گنج اور یکہ توت کے اندر قدیمی محلے اسی طرح آباد ہیں چوک یاد گار، اندر شہر اور قصہ خوا نی کے چائے خا نوں کی وہی رونق ہے۔
یا د گار شہداء کے با لمقا بل پھول والوں کی گلی مجھے آج بھی دہلی کے پھول والوں کی یا د دلا تی ہے اس کومر زا فر حت اللہ بیگ نے امر کر دیا اس کو امر کرنے والے نہ ملے، آج صبح کے ماشکی کا کر دار معدوم ہو چکا ہے تا ہم صبح سویرے پشاور کی مسجدوں سے نکلتے ہوئے بزر گوں کے ہاتھوں میں دودھ کے چمکتے دمکتے سرخ وسفید بر تن ایسے ہی نظر آرہے ہیں چائے خانوں میں اخبار پڑھ کر سنا نے والوں کا وہی چلن ہے سدا اباد رہے صبح پشاور۔