کھڑکیاں ابھی تک پردوں سے ڈھکی ہوئی تھیں

ایڈورڈین ولیم ولٹ ماہر تعمیرات تھا‘ انگلینڈ کا باسی تھا‘ اس نے تعلیم تو مختلف مضامین میں حاصل کی تھی لیکن اس کے والد چونکہ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تھے تو اس نے یہ شعبہ اپنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لندن میں ایسے نادر گھروں کی تعمیر کی کہ اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی لیکن ولیم ولٹ کی اصل شہرت کی ایک اور وجہ اس سے بھی بڑی وجہ بن گئی‘ ایک دن وہ علی الصبح انگلینڈ کے شہر پٹس برگ میں گھڑ سواری کر رہا تھا کہ اس نے دیکھا دن چڑھ آیا ہے صبح کی روشنی ہر طرف پھیل گئی ہے لیکن لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں ابھی تک بند اور پردوں میں چھپی ہوئی ہیں‘ اس کا مطلب تھا وہ ابھی سوئے پڑے ہیں‘ ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا اور دن کی روشنی کے ضیاع کا خیال ہر سو چھا گیا اور اس نے اپنے خیال کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کیا اس نے ایک پمفلٹ تیار کیا اور لوگوں کو قدرت کی طرف سے جو روشنی مہیا کی گئی ہے اس کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ترغیب دینے کیلئے مشورہ دیا‘ اس پمفلٹ کو اس طرز پر تیار کیا گیا کہ موسم خزاں اور موسم بہار میں گھڑیاں آگے اور پیچھے کر کے ایک گھنٹہ وقت کو زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ انگلینڈ میں ان دنوں ونسٹن چرچل کی حکومت تھی‘ یہ بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے‘ رابرٹ ہیرس انگلینڈ کی اسمبلی میں ممبر تھا‘ ولیم ولٹ نے اس کے ساتھ مل کر حکومتی سطح پر اس بات کو قانون کی شکل دینے کی کوششیں شروع کر دیں کہ موسم خزاں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں اور موسم بہار میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر دیا جائے تاکہ سورج کی روشنی کو زیادہ استعمال کیا جا سکے اور توانائی کی بچت ہو۔ جون میں دن گھٹنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ جنوری سے دن بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں‘ رابرٹ ہیرس اس آئیڈیا کو لے کر اسمبلی پہنچا لیکن کسی نے اس بل پر دھیان نہیں دیا‘ ونسٹن چرچل نے بھی اپنے طور پر کوشش کی لیکن ہاﺅس آف کامن کے ممبرز کی سمجھ میں یہ بات نہ آ سکی‘ سو اس بل کو پاس کروانے کیلئے اسمبلی میں رابرٹ ہیرس کی مدد سے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں جنگ عظیم اول (1918ء۔1914ئ) شروع ہو گئی‘ یورپ بھر میں کوئلے کی شدید کمی واقع ہو گئی‘ ضروری تھا کہ توانائی کے اس ذخیرے کی بچت کی جائے‘ لوگوں کو ایک گھنٹہ روشنی کا استعمال کرنے کیلئے گھروں سے باہر رکھنا ضروری ہو گیا‘ ظاہر ہے کاروبار زندگی مغرب میں گھڑیوں کی سوئیوں کے ساتھ چلتا ہے۔ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی‘ تجارت‘ کارخانے تمام کارہائے حیات کا تعلق گھڑیوں سے جا ملتا ہے‘ اگر وقت آگے چلا جائے گا تو لوگ باہر رہیں گے اور کوئلے کی بھی بچت ہو 
گی۔ جرمنی یورپ اور مغرب کا واحد ملک تھا جس کو ولیم ولٹ کی بات بہت جلدی سمجھ میں آ گئی‘ جرمن حکومت نے 1916ءمیں باقاعدہ قانون پاس کیا کہ گھڑیوں کو موسم بہار کے آغاز میں ایک گھنٹہ آگے کر دیا جائے اور موسم خزاں میں ایک گھنٹہ دوبارہ پیچھے کر دیا جائے تاکہ کوئلے کی شدید ترین ڈیمانڈ کو قابو میں لایا جا سکے۔ ولیم ولٹ 1914ءمیں فوت ہو گیا تھا وہ اپنے اس اچھوتے خیال کو پایہ تکمیل تک ہوتا ہوا نہ دیکھ سکا لیکن جرمنی کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ اور امریکہ‘ کینیڈا میں اس خیال کو قانون کا حصہ بنا دیا گیا‘ اکتوبر میں پورے مغرب کی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں اور اپریل میں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں‘ اس طرح گرمیوں کے لمبے دنوں کی روشنی کو استعمال کرنے کا ڈھنگ قانونی بنا دیا گیا۔ جب میں کینیڈا اپنے بچوں کے ساتھ آتی 
تھی تو ان دنوں ٹیکنالوجی کی ترقی ایسی حد تک نہیں پہنچی تھی کہ سمارٹ فون‘ سمارٹ ٹی وی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آنکھوں کو خیرہ کر دے‘ پرانی گھڑیاں‘ کلاک‘ ہاتھ کی پرانی گھڑیاں‘ چھوٹے فون سیٹ وہ بھی بہت کم لوگوں کو میسر تھے اور یہ بات میں صرف بائیس تئیس سال پہلے کی کر رہی ہوں ٹائم کو آگے پیچھے کرنے کیلئے اعلان ہو جاتا تھا اور تمام لوگ خود اپنی گھڑیوں کو سیٹ کرتے تھے‘ میں نے ساری نوکری براڈ کاسٹنگ میں کی ہے تو ریڈیو‘ ٹی وی‘ اخبارات سے میرا رشتہ کبھی بھی نہ ٹوٹ سکا‘ اس ایک بات نے مجھے اس بات سے روشناس کیا اور میں نے 26 اکتوبر کی رات اپنے کلاک کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا‘ دوسرے دن میرے بیٹے نے یونیورسٹی اپنی کلاس لینی تھی اپنی گھڑیوں کے مطابق اس کو میں نے وقت پر اٹھایا‘ تیار ہو کر وہ یونیورسٹی چلا گیا‘ اس وقت تک اس کو خود بھی علم نہ تھا کہ گھڑیاں پیچھے ہو گئی ہیں‘ جب وہ یونیورسٹی گیا تو بیشتر طلباءو طالبات ایک گھنٹہ لیٹ کلاس میں پہنچے کیونکہ وہ اس بات سے آشنا تو تھے لیکن اپنی گھڑیوں کو قانون کے مطابق ایڈجسٹ نہ کر سکے تھے‘ میرے بیٹے نے میری تعریف کی کہ امی آپ 
کو کیسے پتا تھا۔ بہرحال یہ تو ایک بات یوں ہی لکھتے ہوئے ذہن میں آ گئی‘ اب جس ڈیجیٹل عہد میں ہم رہ رہے ہیں خصوصاً مغرب نے جس طرح ٹیکنالوجی میں چھلانگیں لگا کر ترقی کی ہے اس کی مثال ہمارے غریب ممالک میں کم ہی دیکھنے میں آتی ہے‘ اب گھڑیاں فون تمام کے تمام خودکار نظام کے تحت وقت کو ایڈجسٹ کر دیتے ہیں‘ آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا‘ وقت آپ کو ساتھ لے کر چلتا ہے چاہے پیچھے ہو جائے یا آگے ہو جائے۔ مغرب کے لوگ ویسے بھی گرمیاں جشن کی طرح مناتے ہیں‘ وقت کے اضافے سے ان کو یک گونہ خوشی حاصل ہوتی ہے وہ اپنا زیادہ وقت گھروں سے باہر ہوتے ہیں‘ ہمارے ملکوں میں توانائی کی بچت کا کوئی ایسا تصور نہیں ہے‘ پہلے تو توانائی حاصل کرنے کے ذرائع بہت کم اور بہت مہنگے میسر ہیں پھر ان کی بچت کرنے کا ایسا کوئی ولیم ولٹ موجود نہیں جو کچھ راستے دکھا سکے البتہ ہمارے ہاں سردیوں کے سورج کی کیا بات ہے جس طرح ہمارے لوگ چمن اور باغ میں کینوﺅں کے ڈھیر سامنے رکھ کر سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں سردیوں میں مغرب اس کا تصور نہیں کر سکتا‘ مغرب کی سردیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ باہر کھلے موسم میں بیٹھنا بیماری کو دعوت دینا ہے‘ جب بھی مغرب میں گھڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں لوگ اس وقت کو ایسے اپنے اندر سمو لیتے ہیں جیسے یہ ان کی زندگی کا ایک حصہ ہے کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ نیا وقت ہے یا یہ پرانا وقت ہے‘ اپنے کام اور سونے کے اوقات کو ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے اور زندگی رواں دواں رہتی ہے‘ محنت کرنا یہاں کے لوگوں کا شعار ہے سوائے چھٹی کے دن کے کہ تفریح کرنا ان لوگوں کی سرشت میں ہے ہی نہیں اس لئے کہ یہاں اگر آپ محنت نہیں کریں گے تو پھر زندگی کو گزارنا شدید ترین مشکل ہو جاتا ہے‘ مغرب نے ولیم ولٹ کو اپنے اس اچھوتے آئیڈیا کی وجہ سے بہت پذیرائی دی۔ انگلینڈ میں اس کے نام سے پٹس برگ میں مین روڈ کو نام دیا گیا اور قانون (The waste of day light) کو بھی اسکے نام کے ساتھ وابستہ کیا گیا‘ 18 ویں اور 19 ویں صدیاں اسلئے قابل تحسین ہیں کہ ان صدیوں میں ایسے باکمال لوگوں نے جنم لیا جنہوں نے دنیا میں ترقی و عروج اور ایجادات کے جھنڈے گاڑ دیئے‘ ادب کا میدان ہو یا طب‘ صنعت و تجارت‘ زراعت‘ تعلیم و سیاست کا‘ مفکرین‘ دانشوروں اور ان عظیم رہنماﺅں نے ہر شعبے میں ایسے شہ پارے چھوڑے ہیںکہ انکے خلاءکو آج تک کوئی پر نہیں کر سکا‘ ان کی ایجادات نے آنیوالی نسلوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔