یہ کھڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں‘ یہ آپ کو گلیوں اور سڑکوں میں ہونے والی تمام نقل و حرکت کی سیر کراتی ہیں‘ میرے ایک جاننے والے ہیں وہ باقاعدہ ”میں اور میری کھڑکی“ کے نام سے ڈائری لکھتے ہیں‘ عمر گزرتے گزرتے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ آپ ایک اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ میں کتاب لے کر سائیڈ ٹیبل پر چائے کا کپ رکھ کے کھڑکی میں سے جھانکتے رہتے ہیں جس سے باہر کے نظارے ہر وقت آپ کو ملتے رہتے ہیں‘ بعض کھڑکیوں میں تو جھانکنا بھی نہیں پڑتا‘ خود بخود سب نظر آ رہا ہوتا ہے‘ انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے اور رشتے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے گزرتے جاتے ہیں‘ ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے شاید ہمیں بھی اپنی توانا عمروں میں جلدی ہوتی ہو گی لیکن مجھے ایسا کوئی لمحہ ماضی میں نظر نہیں آتا‘ میں تو اپنی بوڑھی بیوہ ماں کے پاس پشاور کے ایک گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنی تمام چھٹیاں اس کی چارپائی کی پائینتی کے ساتھ لگ کر گزار دیتی تھی‘ سب کہتے تھے اٹھو نا باہر شاپنگ کر آؤ کہ پشاور خرید و فروخت کا مرکز ہے لیکن مجھے ماں کی باتوں کے سوا کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ بڑھاپے میں اپنے ساتھی کی کس طرح کمی محسوس ہوتی ہے میری ماں میرے والد کی ہمدردی اور محبت ہمیشہ یاد کرتی تھی۔ پشاور میں بھی گھروں میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہوتی تھیں جو ان عروسیوں سے علاوہ ہوتی تھیں جو گھر کے اندر کمروں کو ملاتی تھیں یا جدا کرتی تھیں‘ یہ سائز میں بہت چھوٹی ہوتی تھیں ان کو باریاں کہا جاتا تھا‘ شاید اب بھی پشاور کے پرانے گھروں میں یہ باریاں موجود ہوں جن سے چھکا لٹکا کر ریڑھی والے سے فروٹ سبزی خریدی جاتی تھی‘ ہمسائی کو آواز دے کر بلایا جاتا تھا اور اس نے کیا پکایا ہے اس کے گھر میں کیا چل رہا ہے اور اپنے گھر میں کیا ہو رہاہے‘ سب بڑے خلوص سے بتایا جاتا تھا‘ فرصت ہی فرصت تھی جب خاص مذہبی دن آتے تھے۔ شب معراج‘ شب برات‘ چوری روزہ تو پشاور کو بڑا یاد آتا ہے پلیٹیں بھر بھر کر ہمسایوں میں تقسیم کی جاتی تھیں‘ محرم کی نویں دسویں ہو یا ربیع الاول کے دن‘ مسجد اور ہمسایہ
کبھی بھی نہیں بھولتے تھے‘ نہ جانے اب بھی ایسا ہوتا ہے‘ غربت اور مہنگائی نے اس فراوانی کو یقینا کم کر دیا ہو گا کچھ دلوں میں بھی ایسی نفرتیں کھوٹ دکھاوا عود کر آیا ہے کہ سب روایتیں ناپید ہو گئی ہیں‘ مغرب ان باتوں سے مبرا ہے یہاں تو سامنے دیکھ کر بھی سلام دعا تک کا رواج نہیں ہے‘ میں بھی آج کل اسی ہجوم بیکراں میں شامل ہوں جو کھڑکی کو سہیلی بنا لیتا ہے‘ بڑے گھروں کی کھڑکیاں بھی بڑی ہوتی ہیں کیونکہ ان کے مکینوں کے دل چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں‘ مجھے تو کھڑکی کے باہر برف ہی برف نظر آتی ہے تاحد نظر تک برف کے اونچے نیچے ٹیلے بنے
ہوئے ہیں‘ گھروں کے سامنے بلکہ بنگلوں کے سامنے نئے ماڈلز کی گاڑیاں کھڑی ہیں اور وہ برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ جب کسی مکین نے باہر جانا ہو تو گھر کے اندر سے گاڑی کو سٹارٹ کر دیتا ہے‘ گرمائش کا بٹن دبا دیتا ہے‘ گاڑی اس کے بیٹھنے تک گرم ہو جاتی ہے‘ ایسے برش موجود ہیں جو سیکنڈوں میں گاڑیوں پر سے برف کو ہٹا دیتے ہیں‘ شیشے ایک دم صاف کر دیتے ہیں‘ یہاں نوکر تو ہے ہی نہیں جو ہر وقت گاڑیاں چمکاتے پھریں‘ یہ تمام کام پاکستان میں فالتو کہلانے والے کام یہاں امیروں کو خود کرنے پڑتے ہیں‘ برف کے طوفان بھی ہوں اپنے لاڈلے جانور کو ٹہلانے کے لئے باہر نکلنا ضروری ہوتا ہے‘ میں کھڑکی سے گاڑیاں ہی دیکھتی رہتی ہوں پھر لکھتی ہوں پڑھتی ہوں پھر کھڑکی سے باہر نظر پڑتی ہے تو اس طوفانی سردی میں بھی جاگنگ کرتے ہوئے
لوگ نظر آتے ہیں جس کو جس وقت موقع ملے واک کرنے نکل پڑتا ہے‘ لباس کا ایسا خیال رکھا جاتا ہے کہ سردی لگ جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن یہ سب جوان لوگوں کی سرگرمیاں ہیں‘ ہماری عمروں کے لوگ سردی میں اس شغل سے کنارہ رکھتے ہیں‘ یہاں کا نمونیا بڑا خطرناک ہوتا ہے‘ صحت کے مسائل سے دوچار ہو جاؤ تو ڈاکٹر تک رسائی انتہائی مشکل‘ اس لئے اپنی مدد آپ اس طرح کرنا پڑتی ہے کہ حتیٰ الامکان اپنے آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جائے‘ لوگوں کو کھڑکی سے باہر چلتے پھرتے ہوئے دیکھ کر اپنا گھر اپنا شہر بہت یاد آتا ہے‘ اکثر ہی آنکھوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے‘ میں سوچتی ہوں کیوں ہماری عمروں میں دل کمزور ہو جاتے ہیں اور آنسو بغیر اجازت کے بہنے لگتے ہیں۔ ویسے تو ہر عمر میں جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک اچھا جیون ساتھی دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے‘ ان لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھی کی قدر و منزلت کرنی چاہئے جو اس سے ہم کنار ہیں لیکن ڈھلتی عمروں میں ایک ایسا ساتھی چاہئے ہوتا ہے جو صرف دل کا حال ہی سن لے‘ کسی کا دکھ سن لینا کس قدر بڑی بات ہے کہ کوئی اس کا خیال نہیں کر سکتا‘ دکھوں مصیبتوں کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا اللہ کی ذات ہی اس کو رفع کر سکتی ہے لیکن جو کوئی آپ کو اپنے دل کا حال سنا رہا ہے اس کو سن لیا کریں‘ کسی کے دل کے بوجھ کو اپنے دل میں سما لینے سے بڑا ثواب ملتا ہے۔ اولاد مجبور ہوتی ہے یا مجبوری ظاہر کرتی ہے وقت کی کمی ان کے پاس ہوتی ہے جس بات کو ہم بڑے بوڑھے دکھ تکلیف کہتے ہیں وہ ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتی‘ طاقت اور توانائی بہت لاجواب ہوتی ہے اس کو جوابدہ نہیں ہونا پڑتا‘ میری کھڑکی بھی میری ساتھی ہے‘ برف سے مرجھاتے ہوئے درخت‘ ٹنڈ منڈ پودے‘ برفوں کو دیکھتے رہتے ہیں‘ شاید اس موسم میں یہ بھی بے پناہ اداس ہوتے ہیں ان پر بھی یہ مہینے قیامت بن کر ٹوٹتے ہیں‘ ان کی تکلیف پژمردگی ان سے بہتر کون جانتا ہے شاید میرے جیسے حساس لوگ ان کا درد جان سکتے ہیں کیونکہ کچھ کچھ یہ ہم سے ملتے جلتے ہیں۔