میرے ہم وطن میں اب وہ نہیں رہی

1960ء‘ 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں 20 سال کی عمر تک پہنچنے والی لڑکیاں اتنی باشعور کبھی بھی نہ تھیں کہ وہ اپنے ملک و قوم کے دفاع کیلئے تحریک کی مانند بن جائیں‘ مینا کشور کمال ایسی ہی عمر میں پرجوش انقلابی اور وطن کی محبتوں کے جذبوں سے مالا مال ہو گئی تھی کہ جب روس نے افغانستان پر اچانک حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنا چاہا تو پورا افغانستان غصے سے بھر گیا اور خصوصاً افغانستان کی نئی نسل نے روس جیسی سپر پاور کو سبق سکھانے کیلئے ایسے ایسے کام کئے کہ آج افغانستان کی جنگ کو ختم ہوئے بھی کچھ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے لیکن آج کے دن تک بھی ان کے حوصلے اور جذبے اپنے وطن کیلئے کم نہیں ہوئے۔ امریکہ‘ روس کو افغانستان سے نکالنے کیلئے ایسے چھلانگ لگا کر اس خطے میں آیا کہ روس تو بہت جلد اپنے زخم چاٹتے ہوئے خطے سے نکل گیا اپنی فوج اور لاکھوں ڈالر اسلحے کا نقصان کر کے چلا گیا لیکن امریکہ کو افغانستان کی پہاڑوں کی دلدل میں دو دہائیاں لگ گئیں اور نیٹو افواج اور تقریباً پورا مغرب ایسی شکست خوردگی کا شکار ہوا جس کی مثال جنگوں کی دنیا میں کم کم ہی ملتی ہے۔ یہ ایک جنگ تھی جو اب ختم ہو چکی ہے لیکن جس میں ساری دنیا کی افواج جھونک دی گئی تھیں۔ افغانستان کے ہمسایوں نے بھی جانوں اور مالوں کی قربانیاں دیں اور افغانستان کی نئی نسلیں تو اس طرح بکھر گئیں کہ اس وقت کا ترقی یافتہ افغانستان اب مختلف صورتحال سے دوچار ہے۔ مینا کشور کمال بھی 20 سال کی نوجوان اور پرجوش طالبہ تھی جب روس کے حملے کے خلاف وہ باہر نکل آئی اور اس نے افغانستان کی نوجوان خواتین کیلئے ایک تنظیم بنائی جس کا نام تھا ریولوشنری ایسوسی ایشن آف دی افغان ویمن اور اتنی کم عمری میں ہی اس نے ایک میگزین بھی نکالا جس کا نام 
تھا ”پیام زن“۔ مینا کشور کمال سارا دن ان جلوسوں کی قیادت کرتی جو روس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر اس کو نکل جانے کے عزم کے ساتھ نکالے جاتے تھے اور سکول‘ کالج اور کابل یونیورسٹی میں روس کے ناجائز قبضے کے خلاف تحریک بن کر اپنی آواز کو یکجا کرتے تھے۔ جب بڑے پیمانے پر افغانستان کے لوگوں نے ہجرت کی اور وہ پاکستان‘ ترکی اور ایران کی طرف جانا شروع ہوئے تو مینا کشور کمال پاکستان کے شہر کوئٹہ آ گئی اور ”وطن“ سکول کے نام سے اپنے افغان بچوں بچیوں کیلئے تعلیم دینے کا کام شروع کیا‘ ہسپتال بنائے اور بے شمار دستکاری سکولوں کی بنیاد حکومت پاکستان کے تعاون سے رکھی‘ اس کم عمر لڑکی کی اس پرجوش تحریک کا مقصد افغان خواتین کو اس مشکل وقت میں سہارا دینا تھا۔ میناکشور کمال نے اپنی بے انتہا کم عمری کی آواز کو اپنے ملک و قوم کی محبت کیلئے آگے کی بھٹی میں جھونک دیا‘ جبکہ اس کی عمر کے کئی لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ بیرون ملک آباد ہوئے اور اچھے مستقبل کی تلاش شروع کی لیکن مینا کشور کمال کی جدوجہد عام افغان عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا‘ افسوس وہ صرف 12 سال تک ہی یہ جدوجہد جاری رکھ سکی اور ایک گولی کا نشانہ بن کر تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے کیلئے کھو گئی‘ اس لئے کہ وہ عورت کی محکومیت کے خلاف تھی اور 
جہالت کے اندھیروں سے افغان عورت کو باہر نکالنا چاہتی تھی اس لئے اس کا دشمن عورتوں کو حقوق دینے کے ڈر سے بزدلی دکھا گیا تھا اور ایک عورت کی جان لے لی تھی۔ حیرت ہے اس نے اپنی زندگی میں ہی ایک طویل نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا میں کبھی واپس نہیں آؤں گی‘ میں اپنے وطن کے جلے ہوئے بچوں کی راکھ سے طوفان بن جاؤں گی‘ میرے وطن کی تیاری نے مجھے مضبوط کر دیا ہے‘ میں اپنے بھائی کے خون سے نکلنے والا ایسا چشمہ ہوں جو ابل کر باہر آ گیا ہے‘ میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے‘ میرے وطن کا غصہ مجھے طاقتور بنا دے گا‘ میرے تباہ حال اور جلے ہوئے گاؤں نے مجھے دشمن کے خلاف نفرت سے بھر دیا ہے‘ میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے‘ میں وہ عورت ہوں جس نے اپنا رستہ چن لیا ہے‘ وہ کبھی واپس نہیں پلٹے گی‘ میں نے پوشیدہ بند دروازوں کو کھول دیا ہے‘ میں نے سنہری سونے کی چوڑیوں کو خدا حافظ کہہ دیا ہے‘ اے میرے ہم وطن میں اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی‘ میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے‘ میں اپنا رستہ جان گئی ہوں اب کبھی واپس نہیں آؤں گی‘ میں اپنے ننگے پاؤں‘ برباد اور بے گھر بچوں کو دیکھ سکتی ہوں اور مہندی لگے ہوئے جوان اور خوبصورت ہاتھوں کو ماتمی لباس پہنے ہوئے دیکھتی ہوں‘ میں جیل کی اونچی دیواروں کو دیکھتی ہوں جنہوں نے ہماری آزادی کو کھا لیا ہے‘ میں نے اپنے حوصلے کے ساتھ ایک نیا جنم لیا ہے‘ میں نے آزادی کا نغمہ‘ فتح اور خون کی آخری ہچکی سے سن لیا ہے‘ اے میرے دیس کے رہنے والے‘ میرے بھائی میں اب کمزور اور بے صلاحیت نہیں ہوں‘ میں اپنے تمام 
حوصلے اور مضبوطی کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کیلئے تمہارے ساتھ کھڑی ہوں‘ میری آواز ہزاروں جاگ جانے والی عورتوں میں شامل ہو چکی ہے‘ میرا مکا بھی میرے ہم وطنوں کے ساتھ طاقت بن کر شامل ہو چکا ہے‘ تمہارے ساتھ ہی میں اپنے قدموں کو اپنے پیارے وطن کیلئے آگے بڑھاؤں گی تاکہ دکھوں کی زنجیریں کھل جائیں اور غلامی کی بیڑیاں کھل جائیں‘ او میرے بھائی میں اب وہ نہیں ہوں جو کبھی تھی‘ میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے‘ میں نے اپنا رستہ دیکھ لیا ہے اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ مینا کمال صرف 31 سال کی عمر میں مر گئی‘ اپنے وطن افغانستان سے شدید محبت کرنے والی نوجوان جوشیلی لڑکی نے اپنی لافانی نظم میں کہہ دیا کہ میں اب واپس نہیں آؤں گی آج اس کو دنیا سے گئے ہوئے بھی برسوں بیت گئے ہیں‘ افغانستان پر اب بھی مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ مینا کشور کمال کے مرنے کے بعد اس کی بنائی ہوئی آرگنائزیشن راوا (RAWA) اپنا کام کرتی رہی اور آج تک کر رہی ہے اور مینا کمال کی طرح اور اس کے مقصد کی طرح اس کی آرگنائزیشن پر یقین رکھتی ہے کہ آزادی‘ جمہوریت خیرات میں نہیں ملتی یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کی بقاء کیلئے لڑ کر آزادی حاصل کریں اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے وطن کو ایک بار پھر ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواب کے ساتھ جی رہے ہیں‘ ان کے آباؤ اجداد آج بھی اپنے وطن کو دیار غیر میں بیٹھ کر یاد کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب وہ افغانستان کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھیں گے۔ مینا کشور کمال تو اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن افغانستان کی عورت آج بھی آزادی کی جدوجہد میں اپنے بھائیوں کے ہمراہ کھڑی ہے۔