چترال بالا کے ایک دورافتادہ گاﺅں’ شوگرام‘ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے یکتائے روزگار شاعر‘ بابا سیار‘ پیدا ہوئے جنہوں نے فارسی اور کہوار زبانوں میں شاعری کی‘فارسی میں انہوں نے فردوسی کے طرز پر چترال کی تاریخ ”شاہنامہ سیار“ لکھی اور شاعری کے مجموعے کو ”دیوان سیار“ کا نام دیا۔ کہوار زبان میں ان کی طویل رومانوی نظم ”یارمن ہمیں“ دو صدیوں سے زبان زد عام ہے‘ سنگلاح پہاڑوں اور سرسبز و شاداب وادی میں گھرا یہ خوبصورت چھوٹا سا گاﺅں کہوار زبان کے ایک اور صاحب دیوان شاعر‘ محمد چنگیز خان طریقی‘ کا بھی مسکن رہا ہے جس کی شاعری ’بلائیدو گمبوری‘ ( سوکھے پھول) کے نام سے چھپ چکی ہے۔ اتوار کے دن انکے بھائی چترال کے ایک اور مایہ ناز سپوت سابق سفیر محمد اسلم خان کو شوگرام کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے ”خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں “ اسلم خان مرحوم تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک سفارتکار رہے اور دفتر خارجہ میں اور بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں مختلف
عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے سوئٹزر لینڈ‘ ایران‘ مصر اور امریکہ میں خدمات انجام دیں اور آخر میں کویت میں پاکستان کے سفیر رہے۔ انہوں نے اپنی سفارت کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اور وہاں مقیم پاکستانیوں کی بہبود کیلئے سرگرم رہے‘ محمد اسلم خان کے والد مقامی سکول میں پڑھاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ ان دنوں چترال میں آمدورفت کے ذرائع محدود تھے۔ سردیوں میں زیادہ برف پڑتی تو اس علاقے کا ملک کے دوسرے حصوں سے رابطہ منقطع ہوجاتا۔ یہاں اخبار بسا اوقات
دودنوں کے بعد ملتا۔ انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا۔ خبر چترال پہنچتے پہنچتے پرانی ہوجاتی۔ ان حالات میں ابتدائی تعلیم کے بعد اسلم خان اپنے گاﺅں سے نکل کر پہلے پنجاب یونیورسٹی گئے اور پھر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پہنچے۔ یہاں سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے مقابلے کے امتحان میں قسمت آزمائی کی‘ وہ کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی اور صوبے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ وہ وزارت خارجہ سے منسلک ہوگئے اور ترقی کرتے سفیر بن گئے۔ اسلم خان صاحب مجھ سے تین سال پہلے وزارت خارجہ میں آئے تھے۔ میں 1992ءمیں قاہرہ سے لوٹا تو وہ جنیوا میں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر دفتر خارجہ پہنچ چکے تھے۔ یہاں سے ہماری دوستی شروع ہوئی جو عمر بھر قائم رہی۔ اسلام آباد کے علاوہ ہماری ملاقاتیں تہران‘ قاہرہ‘ واشنگٹن اور کویت میں بھی ہوئیں۔ وہ ایک ذہین ‘ قابل اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ بین الاقوامی امور اور حالات حاضرہ پر گہری نظررکھتے تھے۔ علاقائی
زبانوں کے علاوہ ان کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ ہم ایران پہنچے تو وہ ہمیں عمر خیام‘ فردوسی اور فریدالدین عطار کے مزارات پر بھی لے گئے جو علم و آگہی کا سفر تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلم خان کویت میں مقیم رہے۔ انہوں نے حال ہی میں وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور تیاری شروع کی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ انہیں ایسی بیماری نے آلیا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس دن جب ان کے جسد خاکی کو شوگرام کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تو ان کی روح کو یہ تسکین تو مل چکی ہوگی کہ جس گاﺅں کی گلی کوچوں میں انہوں نے بچپن گزارا تھا‘ جہاں وہ جوان ہوئے تھے اور جس کی مٹی کی خوشبو سے وہ ایک لمبے عرصہ سے محروم رہے تھے آج وہاں پہنچ گئے ہیں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ جب یہاں آئینگے تو انکے بدن میں زندگی کی حرارت نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کیا کرسکتا ہے۔ وہ فقط خواب دیکھ سکتا ہے جس کی تعبیر اسکے بس میں نہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے:
حقیقت ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے