میں نے سفر کیلئے خریداری کا قصد کیا جنید جمشید کے جاذب نظر سٹور میں داخل ہوا جہاں پہلے سے خریداروں کا کافی رش تھا اور سیلز مین تک رسائی مشکل دکھائی دے رہی تھی مجھے لمبی چوڑی خریداری کی ضرورت نہیں تھی عمرہ کی ادائیگی کے دوران زیب تن کرنے کیلئے سادہ کپڑوں کے چند جوڑے خریدنے تھے ایک سیلز مین میری طرف متوجہ ہو گیاجب میں نے اسے بتایا کہ عمرہ کے لئے ضروری کپڑے خریدنے ہیں تو سیلز مین کا انداز ہی بدل گیا گویا میری ضرورت پوری کرنا اس کے لئے مذہبی فریضہ ہو نوجوان نے اپنی دکان میں موجود بہترین جوڑے مجھے دکھائے قیمت میں بھی میرے ساتھ خصوصی رعایت برتی میرے ساتھ سامان کا تھیلا اٹھا کر گاڑی تک لے آیا اور ایک ہی خواہش کا اظہار کیا کہ حرم کعبہ میں اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد کریں۔ وہاں سے فارغ ہو کر احرام خریدنے شہر میں کپڑوں کے معروف سٹور آرشین میں داخل ہوا سٹور کے شیلف میں وہ احرام موجود نہیں تھا جو مجھے چاہئے تھا سیلز مین کو گودام سے احرام کا کپڑا لانے بھیجا گیا کپڑا بہت معیاری تھا میں نے ایک کے بجائے دو جوڑے خریدنے کا فیصلہ کیا میں نے سیلز مین سے احرام کی قیمت پوچھی تو سٹور کے مالک نے میرے اصرار کے باوجود احرام کی قیمت لینے سے معذرت کر لی کہنے لگے کہ آپ ایک مقدس سفر پر جا رہے ہیں اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ کر قبول کیجئے بس یہی میری درخواست ہے کہ مدینہ پہنچ کر میرا سلام بھی سرکار مدینہ کے حضور پیش کریں۔ گرمی کے دن تھے بدن پسینے میں شرابور تھا اوپر سے بجلی کی لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی میں اپنے سفر حجاز کے لئے مناسب جوتے خریدنے کی نیت سے جوتوں کی دکان میں داخل ہوا باٹا سٹور کے سیلز مین بھی گرمی سے ہلکان ہو رہے تھے میرے سٹور میں داخل ہونے پر بھی انہوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی ریک میں رکھے ہوئے جوتوں کی قیمت پوچھنے پربھی سیلز مین نے کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جونہی میں نے اسے بتایا کہ عمرے پر جا رہا ہوں گرمی کا موسم ہے وہاں کی ضرورت کے مطابق مجھے آرام دہ جوتے درکار ہیں تو سیلزمینوں کا لہجہ اور برتاؤ بھی اچانک بدل گیا مجھے ایک ائرکنڈیشنر کے سامنے لے جا کر بٹھایا گیا میرے سامنے مختلف اقسام کے جوتے لا کر رکھ دیئے گئے میری ضرورت کے مطابق آرام دہ جوتے پسند کرنے میں سیلز مین نے میری مدد کی سٹور کے اہلکاروں نے جس خوش اخلاقی، محبت، گرمجوشی اور احترام کا اظہار کیا وہ میرے لئے بے حد خوشی اور طمانیت کا باث تھا سٹور سے نکلتے ہوئے انہوں نے بھی دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست کی۔ نماز کی ادائیگی کے لئے اپنی مقامی مسجد میں داخل ہوا تو ایک ادھیڑ عمر شخص نے آگے بڑھ کر سلام کیا گرمجوشی سے مصافحہ کے بعد میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور پوچھا کہ عمرہ کے مبارک سفر پر کب روانگی ہے؟ ان کو میری ذات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن جس راہ پر میں نے نکلنے کا قصد کیا تھا یہ اسی کا اعجاز تھا کہ لوگ میری طرف کھنچے آرہے تھے میرا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حرم کعبہ جا کر میری بیمار بیوی کی صحت یابی کے لئے بھی دعا کیجئے اور مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔ مسجد میں ایک دوسرا نوجوان میرے قریب آیا میرا ہاتھ تھاما اور مجھے ایک کونے تک لے گیا اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو میں صاف دیکھ سکتا تھا نہایت ادب اور احترام سے اس نے اپنا مدعا بیان کیا کہ آپ اللہ کے گھر کی زیارت کرنے جا رہے ہیں آپ کی دعائیں ضرور بارگاہ الہٰی میں قبول ہوں گی میرے لئے بھی دعا کریں کہ رب کائنات مجھے بھی اپنے گھر کی زیارت کی سعات نصیب فرمائے‘ مجھے ایسالگا کہ میرے پاؤں زمین سے چپک گئے ہیں اور میرے ہونٹ سلے ہوئے ہیں میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں جس کا میں نے کبھی خواب دیکھا تھا‘نہ ہی کبھی اس کا تصور کیا تھا‘یہ درخواست میری ذات سے نہیں بلکہ اس عازم سے کی جا رہی تھی جو حجاز مقدس کی زیارت کے لئے روانہ ہو رہا تھا میں اپنے کلینک سے نکلنے لگا تو میرا اسسٹنٹ حسرت بھری اور نم نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا میں نے ازراہ مذاق پوچھ لیا کہ تمہارے لئے وہاں سے کیا لاؤں جھٹ سے کہنے لگا ”سر! مجھے اور کچھ نہیں چاہئے میری بیمار ماں کی صحت یابی کے لئے دعا کیجئے میں انہیں عمرے پر لے جانا چاہتا ہوں میرے والد کے لئے بھی دعا کیجئے وہ سینے کی تکلیف میں مبتلا ہیں“۔ میرا یہ اسسٹنٹ زیادہ مذہبی رجحان نہیں رکھتا لیکن ہر کلمہ گو سے گہری عقیدت اور محبت رکھتا ہے سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کعبہ شریف اور مقامات مقدسہ کی حاضری سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے۔ کیتھ لیبارٹری میں انجیوگرافی اور دیگر مصروفیات کے بعد جب ہم باہر نکلتے ہیں تو عموماً تھکے ہارے ہوتے ہیں اور سب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں مگر عمرے کے لئے روانگی سے قبل کیتھ لیب سے میری روانگی کا دن خاص تھا سارے سٹاف نے مجھے گھیر لیا ڈھیر ساری دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ نہایت والہانہ انداز میں مجھے رخصت کیا گیا سفر حجاز کے احساسات ہی کچھ الگ اور عجیب ہوتے ہیں آپ سے رخصت ہونے والے ہر شخص کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ آپ اس کی آرزو ضرور پوری کریں ہر ایک کی اپنی التجا ہوتی ہے مجھے ایسا لگا کہ میں ایک اہم مشن کے ساتھ اعلیٰ ترین مقام کی طرف جا رہا ہوں جہاں مجھے رب ذوالجلال اور اس کے پیارے نبیؐ کے در پر حاضری دینی ہے وہاں اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنے کے ساتھ جن جن سے دعاؤں کا وعدہ ساتھ لے کر گیا ہوں انفرادی طور پر سب کی التجائیں وہاں پیش کرنی ہیں اور اپنے کندھوں پر سے بھاری ذمہ داری اتارنی ہے۔