فرانسیسی سکولوں نے تعلیمی سال کے پہلے دن درجنوں مسلمان لڑکیوں کو عبایا پہننے پر گھر بھیج دیاہے - گزشتہ پیر کی صبح تقریباً 300 لڑکیاں عبایا پہنے اپنے سکولوں میں گئی تھیں جنہیں حکومت کی جانب سے حال ہی میں عبایا پرپابندی کے فیصلے کی روشنی میں سکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ان بچیوں میں زیادہ تر نے لباس کو تبدیل کرنے پر اتفاق کیا لیکن 67 نے انکار کر دیا جس پرانہیں گھر بھیج دیا گیاہے۔واضح رہے کہ فرانسیسی حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ سکولوں میں عبایا پر پابندی عائد کر رہی ہے جس کا مقصد تعلیمی نظام میں سیکولرازم کے اصولوں کو فروغ دینابتایاگیاہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے سر پر سکارف کو مذہبی وابستگی کا مظاہرہ کرنے کی بنیاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔اس اقدام کا فرانس کے دائیں بازو یعنی انتہا پسندوںنے خوشی کااظہارکیاہے البتہ بائیں بازو کا کہنا ہے کہ یہ شہری آزادیوں کی توہین ہے۔فرانس کےصدر ایمانوئل میکرون نے اس متنازع اقدام کا دفاع کیا ہے ۔یہ بات لائق تحسین ہے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک انجمن ایکشن فار دی رائٹس آف مسلمز (ADM) نے اس یکطرفہ فیصلے پر مبنی حکومتی حکام کے خلاف شکایات کے لیے ریاستی کونسل، فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت میں عبایا لباس پر پابندی کے خلاف حکم امتناعی کے لیے ایک تحریک دائرکردیہے۔ حالیہ اقدامات سے یوں لگ رہا ہے کہ اب حکومت عبایہ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جس کا واضح مقصد مسلمان خواتین پر ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس عبایا کے ذریعے اپنے ستر کو ڈھانپنے پرپابندی عائد کرنا ہے۔پیر کو فرانسیسی وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ فرانسیسی حکام 500 سے زائد ایسے سکولوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں سے عبایا پر نئی عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔دراصل حکومت نے موسم گرما کی تعطیلات کے خاتمے سے پہلے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ سکولوں میں عبایا پر پابندی عائد کر رہی ہے جس کا مقصد یہ بتایاگیا تھا اس یعنی عبایا نے تعلیم میں سیکولرازم کے اصولوں کو توڑا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے سر پر سکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے میڈیا کوبتایا کہ فرانس بھر میں کم ازکم 513ایسے ادارے ہیں جن کی شناخت ہم نے تعلیمی سال کے آغاز میں ممکنہ تشویش کے طور پر کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے کام کیا گیا تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کن سکولوں میں یہ مسئلہ پیش آ سکتا ہے، ان کاکہناتھا کہ اس فیصلے کی تنفیذ کے لئے تربیت یافتہ سکول نسپکٹرز کو مخصوص سکولوں میں رکھا جائے گا۔یادرہے کہ فرانس میں تقریباً 45 ہزار سکول ہیںجن میں سے 12 ملین طلباءوطالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے بائیں بازو نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ عبایا پابندی کے ساتھ میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی قومی ریلی کا مقابلہ کرنے اور مزید دائیں طرف جانے کی کوشش کر رہی ہے۔دریں اثناءدائیں طرف کی کچھ سرکردہ شخصیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاستی سکولوں میں بچوں کو سکول یونیفارم پہنائے۔ البتہوزیر تعلیم گیبریل اٹل نے کہا کہ وہ موسم خزاں میں یکساں ٹرائل کا اعلان کریں گے۔ان کاکہنا تھا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ ایک مناسب حل ہے جو سکول کے تمام مسائل کو حل کر دے گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس سے فرانس کے سیکولر امیج کو اجاگرکرنے میں کافی مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ فرانس یا کسی یورپی ملک میں مسلمانوں کی شناخت کے خلاف پابندی کا یہ نہ تو پہلا اقدام ہے اور نہ ہی اسے آخری اقدام قراردیاجاسکتاہے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی ممالک بشمول فرانس میں پچھلے چند سالوں سے جو انتہا پسندانہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ان اقدامات کا تعلق چاہے فرانسیسی رسائل و جرائد میں گستاخانہ موادکی اشاعت ہو یاپھر مسلمانوں کے خلاف اپنایاجانے والا معاندانہ اور نفرت پر مبنی رویہ ہو ان تمام واقعات سے مغرب کا اسلام مخالف چہرہ وقتاًفوقتاًآشکارہ ہوتارہتاہے۔