ارباب اختیار کیلئے قابل توجہ

نظام تعلیم اور فروغ تعلیم میں بااختیار ریاستی حلقوں کی عدم دلچسپی محض یہ نہیں کہ تعلیم کیلئے حسب ضرورت بجٹ مختص نہیں ہوتا اور تعلیمی اداروں کو تدریس و تحقیق اور انتظام و انصرام کیلئے کماحقہ‘ گرانٹ نہیں ملتی بلکہ ان سے جڑے بہت سارے ایسے دوسرے امور بھی ہیں جو ریاستی توجہ کے مستحق اور منتظر نظر آتے ہیں مثال کے طورپر حکومتی پابندیوں کے آئے روز بلاوجہ نفاذ کے سبب جامعات کے ملازمین بالخصوص ٹیچنگ کیڈر کا مسلسل ترقی سے محروم رہنا‘ تحقیق اور سکالر شپس کے لئے مطلوبہ فنڈ کا نہ ہونا جبکہ بااختیار متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم توجہ کے باعث جامعات خصوصاً پشاور یونیورسٹی کیمپس کا ماحول مچھلی منڈی میں تبدیل ہونا موسمیاتی تبدیلی کے گھمبیر چیلنج کے ماحول میں یونیورسٹی کیمپس میں ناقابل استعمال بلکہ ممنوعہ گاڑیوں کی بھرمار اور اس سلسلے میں جامعات انتظامیہ کی مسلسل غفلت بلکہ بے حسی‘ یہ اور ایسے بہت سے دوسرے مسائل ہیں جن میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے مگر بااختیار ریاستی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت ایک پرہجوم بے ہنگم بازار اور پشاور یونیورسٹی کیمپس میں جو قدرے فرق باقی ہے تو وہ بھی آئندہ دوچار سال میں مکمل طور پر ختم ہو جائیگا اب سوال یہ ہے کہ تعلیمی مسائل کا حل اور تعلیمی ماحول کو بربادی سے بچانا آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر یہ محض جامعات انتظامیہ کی ذمہ داری ہو تو پھرریاستی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ انتظامیہ کو طلب کرکے ماحول کی بربادی کے بارے میں ان سے استفسار کرے اگر ذمہ داری مشترکہ ہو تو پھر مل بیٹھ کر ایک ایسا نظام‘ قواعد و ضوابط اور طریقہ کار وضع کرلیں جس پر عملدرآمد سے جامعات اور باہر بازار کے مابین لازمی فرق واضح ہو جائے یہ ریاست کے ذمے عوام کا بنیادی آئینی حق ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور وہ ایک ایسے ماحول میں جسے تعلیمی ماحول کہنا غلط نہ ہوگا یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بلکہ تعلیمی اداروں میں یونین بازی کرنیوالوں کے کرتا دھرتا کو بھی طلب کرکے ان سے جواب طلبی کریں کہ یونیورسٹی کیمپس میں پرائیویٹ گاڑیوں کے اڈے کیونکر قائم ہیں ممنوعہ رکشے اور گاڑیاں کیوں چل رہی ہیں ون ویلنگ سکریچنگ اور ریس کس کی اجازت سے ہو رہی ہے‘ تہہ بازاری اور ہلڑبازی کی انتہا کس نے مسلط کی ہے کیمپس میں سیاسی سرگرمیوں سیاسی جھنڈیوں پینا فلیکس اور سیاسی ٹوپیوں جبکہ سیاسی نعرہ بازیوں کی بھرمار کیوں ہے؟ بلیک شیکر والی نان رجسٹرڈ گاڑیوں اور ہر اسمنٹ کی اجازت کس نے دیدی ہے؟ کیفے اور شاپس میں صفائی اور اشیائے خوردونوش کی حالت کیونکر قابل رحم ہے اور قیمتیں فائیو سٹار ہوٹل کے برابر کیوں ہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ جامعات کے اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کا طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے ؟ محض فیسوں میں ہر سال اضافے پر اکتفا ہوگا یا کفایت شعاری یعنی اخراجات میں ممکنہ حد تک کمی لانے کیساتھ دوسرے ذرائع بھی ڈھونڈنے ہونگے؟ فی الوقت توحالت یہ ہے کہ دوسری چیزوں کو چھوڑ کر ہر یونیورسٹی میں ہر سال لاکھوں روپے کے نارنج ضائع ہو رہے ہیں لیکن انتظامیہ کے بقول وہ اسے اس لئے نہیں بیچتی کہ کیمپس کی خوبصورتی میں فرق آئے گا‘ اب یہ کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ تہہ بازاری‘ ٹو سٹروک ممنوعہ دھواں دار رکشوں‘ ہاسٹلوں اور گھروں کی دہلیز پر باہر سے آنیوالی پرائیویٹ گاڑیوں کے اڈوں اور قدم بہ قدم ٹیکسی گاڑیوں اور رکشوں کے سٹینڈز کے ہاتھوں جو بدصورتی یونیورسٹی کیمپس پر مسلط کی گئی ہے نارنجیں نہ بیچنے سے اس میں کوئی کمی واقع ہوگی؟ ہر گز نہیں!!