پشاور یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم جامعہ اور اساتذہ کیلئے اپنی کاوشوں کی چھ عشروں سے زیادہ عرصہ کی تاریخ پر محیط ہے جبکہ یہ کوششیں تقریباً ایک عشرہ قبل اس وقت قدرے زیادہ تسلسل کیساتھ سامنے آئیں جب جامعہ کے قواعد و ضوابط یا ایکٹ کے پرکاٹنے کی مہم شروع ہوئی‘ صوبے میں ہر ضلع کی سطح پر یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا بلکہ بعض تو اس وقت کرایہ کی عمارتوں میں شروع کی گئیں‘بعض لوگوں کے نزدیک جس انداز سے اب میڈیکل یونیورسٹی کی پورے صوبے بلکہ دوسرے مقامات پر شاخیں قائم کی جارہی ہیں اور حکومت کا ابھی ایک حالیہ اعلان یہ بھی ہے کہ صوبے کے ہر ضلع میں اسلامیہ کالج کا کیمپس قائم کیا جائے گا تو کیا اس طریق پر صوبے کی چند ایک جنرل یونیورسٹیاں یا کیمپس پشاور یونیورسٹی کے کیمپس نہیں ہو سکتے تھے؟ بالکل ہو سکتے تھے اور پھر خرچہ کم اور مقصد حاصل والی بات بھی ہوتی‘کہتے ہیں کہ قدیم درسگاہ کے پر جس انداز سے کاٹے گئے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور یوں قدیم جامعہ مسائل کے دلدل میں کچھ اس قدر پھنس گئی کہ نکلنے کی کوشش کرتے کرتے مزید دھنس گئی‘صوبے کی پرانی یونیورسٹیاں مسائل کے انبار تلے سسک رہی ہیں جن میں پشاور
یونیورسٹی سر فہرست ہے‘ ان مسائل کو لیکر پشاور یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے تعلیمی جرگہ طلب کرلیا جس میں سوائے صوبائی برسراقتدار جماعت اور پاکستان پیپلز پارٹی باقی ماندہ تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل رہی‘جرگے کے منتظمیں نے جو پمفلٹ جاری کیا اس میں سب سے اولین سوال یہ رکھاگیاکہ صوبے میں اعلیٰ تعلیم جس زبوں حالی کا شکار ہے ڈولتی ہوئی اس کشتی کو کنارے لگانا کس کی ذمہ داری ہے؟ میرے خیال میں اس کا جواب تو ملک کے آئین اور پھر اٹھارویں آئینی ترمیم جس کے تحت اعلیٰ تعلیم یا جامعات کو صوبے کے حوالے کیا گیا ہے سے واضح ہوگا‘اگر نہیں ہے تو واضح ہوناچاہئے تعلیمی جرگے میں پروفیسر قبلہ ایاز اور سیاسی رہنما میاں افتخار حسین کی کہی باتیں اگر ارباب اختیار تک پہنچ گئی ہوں تو معاملہ فہم لوگوں کے مطابق حکومت اگر ان معروضات اورتجاویز پر جزوی حد تک بھی عمل درآمد یقینی بنائے تو اعلیٰ تعلیم کے مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں‘جرگے میں شریک معاملہ فہم شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کے بقول جب یہ تلخ حقیقت سامنے آئی تو سننے والوں کا محو حیرت ہونا ایک قدرتی امر تھا کہ خیبرپختونخوا ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں پر اعلیٰ تعلیم کا بجٹ نہیں ہے‘جہاں پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام مسلسل نظر انداز ہوتا رہاہے جہاں پر تعلیمی ایمرجنسی کے ہاتھوں تعلیم کی رہی سہی حالت دیدنی ہوگئی ہے جہاں پر جامعات کی خود مختاری میں جب تنخواہ دی جاتی ہے تو پنشن کے لئے کچھ نہیں بچتا اور یوں سال کے اندر کئی مرتبہ ملازمین تالہ بندی کر کے سٹرک پر بیٹھ جاتے ہیں‘ جرگہ نے جامعات کے چانسلر کے اعلانات پر عملدرآمد اور آنے والے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے کم از کم پچاس ارب روپے مختص کرنے اور پنشن کے بوجھ کو حکومتی ذمے میں ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا‘ جرگہ کے توسط سے جو اہم سوالات اور نکات سامنے آئے ہیں ان میں یہ بات بھی نہایت
اہم ہے کہ جب اعلیٰ تعلیم یا یونیورسٹیوں کو آئینی طور پر صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے تو پھراعلیٰ تعلیم کا بجٹ کیونکر وفاقی حکومت کے پاس ہے؟ مزید یہ کہ جب اعلیٰ تعلیم صوبوں کے پاس ہے تو پھر یونیورسٹیوں پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد کی چھتری کس شق اور کونسی ضرورت کے تحت برقرار رکھی گئی ہے؟ کیا دوسرے صوبوں کے طرز پر خیبرپختونخوا میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے اثر اور تسلط سے آزاد اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم نہیں ہو سکتا؟ قصہ کوتاہ یہ کہ تعلیمی جرگے کے تعلیمی مسائل کو ایک ایک کر کے اجاگر کیا بلکہ اعلیٰ تعلیم کا مقدمہ حکومت کے سامنے رکھ دیا مگر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ارباب اختیار کا جواب اور طرز عمل کیا ہوگا؟ اگر معاملہ ایسا ہی رہا جو گزشتہ ایک عشرے سے سب کے سامنے ہے تو پھر صورتحال مایوس کن ہی رہے گی اگر حکومت جامعات کی حالت سنوارنا چاہے تو پھر اخراجات کا کڑا احتساب بھی ناگزیر ہوگاکیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ جامعات میں بہت سارے اخراجات ایسے بھی ہیں جس میں کفایت شعاری کے طریق کو اپناتے ہوئے کمی لائی جاسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں کیاجا رہا‘مثال کے طور پر درجنوں گاڑیوں جبکہ بجلی گیس اور تیل کا شاہانہ استعمال تو مالی مشکلات سے دوچار کسی بھی ادارے کو زیب نہیں دیتا۔۔