معیارکا فقدان

اس وقت امریکہ کی صدارت جس شخص کے پاس ہے ایسے انسان کے ہاتھوں میں ایٹم بم چلانے کا اختیار ہونا خطروں سے خالی بات نہیں‘ ٹرمپ بلاشبہ ایک بہت بڑے تجارتی ادارے کے مالک ہیں جنہوں نے کارپوریٹ دنیا میں ایک بڑا نام کمایا ہے پر ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ عالمی سیاست کوبھی کارپوریٹ دنیا کی طرح دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں جو ان کی ایک بڑی بھول ہے گوشت پوست کے انسانوں اور ان کے احساسات اور جذبات اورفولاد کی مشینوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اب تک انہوں نے جو بیانات بھی جاری کئے ہیں اور جو جو پالیسیاں مرتب کی ہیں ان میں صرف اور صرف دھن زیادہ کرنے کی ہی بو آ تی 
ہے وہ انسانی روحانی رشتوں سے زیادہ تجارتی رشتوں کے قیام کی بات کرتے ہیں ایک دور تھا کہ وائٹ ہاؤس کے مکین ابراہام لنکن اور روز ویلٹ جیسے نابغے ہواکرتے تھے اگر آپ دنیا کے سیاستدانوں کی قابلیت پر نظر ڈالیں تو آپ کو آج 
کل ڈیگال‘ فرانکو‘ مارشل ٹیٹو‘ لینن‘ماو زے تنگ‘ محمد علی جناح‘ گا ندھی‘ سوئیکار نو‘ کاسٹرو اور منڈیلا جیسے نابغے نظر نہیں آتے‘ سیاست کی اقدار بدل چکی ہیں سیاست جس کو ماضی میں عبادت سمجھا جاتا تھا آج ایک منافع بخش تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔ بھلے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عوامی نوعیت کے کافی کام کر رہی ہیں اب دیکھئے نا اگلے روز انہوں نے کتنا صحیح فیصلہ کیا کہ اگر کم عمر بچے ڈرائیونگ کرتے پائے جائیں تو پولیس انکے 
والدین کیخلاف پرچہ کاٹے اس ملک میں روزانہ کئی ایسے ٹریفک کے حادثات ہو رہے ہیں جن میں کم عمر بچے ڈرائیونگ کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں‘ کیا ان کے والدین کا یہ فرض نہیں بنتا کہ ان کو ایسا کرنے سے روکا جائے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا فیصلہ دیگر صوبوں کے حکام کیوں نہیں اٹھا رہے۔ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں جو بے پناہ اضافہ کیا ہے اس کے پیش نظر ہمیں بھی سال 2025-26ء کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کو ڈبل کرنا ضروری ہوگا اور اس بات کو یقینی بنا نا ہوگا کہ ہماری تینوں افواج فضائیہ بحریہ اور بری جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو بھارت جیسے مکار دشمن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔