محترم ناصر علی سید کا حالیہ کالم”عبرت سرائے دہر ہے“پڑھ کر یوں لگا جیسے ایک اندھیری رات میں تازہ ہوا کا جھونکا جھوم کے اتر آیا ہو اورسالوں اور میلوں کی دوریاں، ایک کوہ گراں تحلیل ہو گیاہو،زندگی جیسے تاحد نظر سبزہ زار کی وادی میں اتر آئی ہو۔یادش بخیر‘ ادراک کا سارا شعور ہمیں قدیم دنیا کے تاریخی اور لاثانی بازار قصہ خوانی میں لے آیا یقین مانئے ہم آج کی قصہ خوانی کاذکر ہرگز نہیں کر رہے ہیں اس قصہ خوانی کا ذکر کر رہے ہیں جس کی سڑکیں کشادہ تھیں، کھلے فٹ پاتھ تھے، تانگوں کی ریل پیل تھی‘ گل فروشاں‘ باداموں اور اخروٹوں کی دوکانیں‘ فالودہ فروشاں مروت سے گاہکوں کو متوجہ کرتے تھے اس بازار میں ایک قدیم مشروب گاہ تھی جس کا نام تاج سوڈا واٹر فیکٹری تھا اس مشروب گاہ کا طرہ امتیاز” بلورے والی“ بوتل تھی اور اس بوتل کو کھولنے کے لئے ایک خاص اوزار تھا جس کی کھنکتی ہوئی آواز سن کر پیاسوں کی پیاس بجھ جاتی تھی۔اس فیکٹری کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری طرف کتابوں کی دوکان تھی جس کا نام تھا صادق کمیشن ایجنسی جہاں ہم جیسے تشنگان ادب مفت میں رسالوں اخباروں کی ورق گردانی کرتے تھے۔
دہائی یہ ہے اب صادق کمیشن ایجنسی کی تیسری نسل کے افراد میں ایک قابل احترام جناب عتیق احمد صدیقی بینگمٹن میں مقیم ہیں وہ پاکستان کے ایک کڑے دور میں جوہرمیر کے ساتھ چھپ چھپا کر پاکستان سے نکل آئے اور نیو یارک کو گھر بنا لیا ذرا آگے سڑک کے دائیں طرف کابلی تھانہ ہے اور اس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف دو منزلہ عمارت کی اوپر والی منزل روزنامہ شہباز کا دفتر تھا جس کے ایڈیٹر شریف فاروق تھے اور اس عمارت کے نیچے جناب لالا وزیر کا دفتر تھا۔ دفتر کیا تھا بلکہ لالا وزیر کاحجرہ تھا جس میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے پبلشرز‘ ادیب‘ شاعر حاجت مند ہر وقت بیٹھے رہتے تھے اور ان کی تواضع قہوے سے کی جاتی تھی لالا وزیر صادق کمیشن ایجنسی کے مالک تھے۔ اس قصہ خوانی بازارکی دوسری طرف ایک بازار تھا جس کا نام بازار بٹیربازاں“ ہے جہاں خوبصورت پروں والے پرندے اور چڑیا‘ بکتی تھیں لیکن اصل بزنس بٹیروں اور کبوتروں کی تھی ذرا آگے شہر کا معروف چوک ”چوک یادگار“ ہے جس کا ذکر تاریخ میں جا بجا ملتا ہے.
چوک یادگار فروٹ کی منڈی بھی تھی جس میں موسموں کے لحاظ سے تربوز‘ سردے‘ گرمے‘ بگوغوشے‘ انگور کے تازہ تازہ ریڑھے آتے تھے ایک اور تاریخی مقام شہر کا گھنٹہ گھر ہے اور اس کے سامنے صرافہ بازار میں مسجد مہابت خان ہے جس کی تعمیر سفید مرمر سے ہوئی ہے چوک یادگاہ ایک جلسہ گاہ بھی تھی جہاں علاقے کے سیاسی جلسے منعقد ہوتے تھے جن میں بطور خاص خان عبدالقیوم خان‘ باچہ خان اور نہ جانے کتنے ہی نامور سیاست دان آکر تقریریں کرتے تھے اس کے علاوہ علامہ مشرقی‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا غلام غوث ہزاروی اور دوسرے مذہبی علماء نے تقریریں کی تھیں۔ اسی چوک یادگار میں ایک منزلہ عمارت میں روزنامہ انجام کا دفتر تھا جس کے ایڈیٹر مسعود انور شفقی تھے عمدہ شاعر تھے ادیب پرور تھے اور ان ہی کے تعاون سے جناب فارغ بخاری او ررضا ہمدانی کی تنظیم”انجمن ترقی اردو“ کے تہلکہ خیز اجلاس ہوتے تھے جن میں باہر سے آئے ہوئے ادیب‘ شاعر‘ شوق اور تجسس سے شرکت کرتے تھے۔ اس انجمن کے کرتا دھرتا فارغ بخاری اور رضا ہمدانی تھے انجمن کے سیکرٹری فرید عرش تھے جو اچھے شاعر تھے اور افسانے بھی لکھتے تھے اور انجمن کے اجلاس سے قبل گزشتہ اجلاس کی کاروائی اپنی فارسی زبان میں پڑھتے تھے.
مستقل حضرات میں جناب ضیا جعفری‘ نظیر مرزا برلاس‘ مرزا محمود سرحدی‘ عالی اصغر‘ محسن احسان‘ احمد فراز‘ شمیم بھیروی اور دوسرے احباب شرکت کرتے تھے عموماً محفل مشاعرہ کے بعد مرزا محمود سرحدی سے مزید فرمائش کی جاتی اور ان کے قطعات شوق سے سنے جاتے تھے،لیکن ایک مشاعرہ بطور خاص بار بار ذہن میں آ رہا ہے یہ پشاور کی گرمیوں کی ایک جھلسی ہوئی شام تھی مساجد میں بارش کے لئے اذانیں دی جا رہی تھیں انجمن کا اجلاس تیسری منزل پر زیر آسمان منعقد تھا احمدفراز ذرا دیر سے پہنچے وہ پسینے سے شرابور تھے، پنکھے کے سامنے بازو کھول کر کھڑے ہو گئے اور ان کی غزل نے مشاعرہ کو جل تھل کر دیا۔ چند اشعار بدستور شعور میں موجود ہیں۔
تپتے صحراؤں پہ گرجا سردریا برسا
تھی طلب کس کو مگرابر کہاں جا برسا
ابرو باراں کے خدا، جھومتا بادل نہ سہی
چند قطرے ہی سر دامن صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یاتو گھنگھور گھٹائیں نہ اُٹھا یا برسا
آج سالوں اور میلوں کا مسافت سے دل کے دروازے پر یہ کیسی دستک ہوئی۔ آج شہرجاناں یاد آرہا ہے ۔ آج پشاوریاد آ رہا ہے لیکن یہ اکیلے نہیں ہمارے ساتھ تو پوری بارات عاشقاں رواں رواں ہے۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا
تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو