بھارت کی مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیزپالیسی

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
بھار ت میں کسی وقت فلم انڈسٹری میں عام معاشرے کے برعکس رواداری کا ماحول تھا اور یہاں پرتعصب کا عنصر کم ہی پایا جاتا تھا تاہم اب پورے بھارت میں جہاں اقلیتوں کا جینا تنگ کردیا گیا ہے وہاں آج فلم انڈسٹری کے سستے مگر انتہائی طاقتور وموثر ذریعے کو معصوم اور سادہ لوح عوام کو نفرت اور تعصب سے مسموم کرنے کا ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے؛حالیہ برسوں میں ایسی فلموں کا ایک ریلا آیا ہوا ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے‘ ایسا نہیں کہ ماضی میں تاریخی نوعیت کی فلمیں نہیں بنتی تھیں تاہم ان میں اس قدر حقائق کومسخ نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن جب سے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کو سیاسی عروج حاصل ہوا ہے اور مودی سرکار نے ہندوتوا ایجنڈے کو پروان چڑھانا شروع کیا ہے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جو اس کی زد سے محفوظ رہا ہو‘بھار ت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضاء قائم کرنے کیلئے پہلے تاریخ کی کتابوں اور نصابی کتب کو مسخ  کیا گیا جبکہ اب فلموں کا بڑے پیمانے پر فرقہ پرستی کے فروغ اور  تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے منظم طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بھارت میں فلم سازی کے سب سے بڑے مرکز ممبئی میں  تاریخ کے نام پر، جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں مسلمانوں سے نفرت، ہمسایہ ملک کی غلط شبیہ پیش کر نے اور تاریخ کو توڑ مروڑنے کا خاصا مواد ہوتا ہے‘مئی2014  میں بھارت کی موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے فلموں کا مبینہ طور پر سیاسی مقاصد کے استعمال کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل فلمی صنعت اس سیاسی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ تھی۔ ان فلموں کا مقصد حکمران جماعت اور اس کی ذیلی  تنظیم کے نظریات  کو دوسروں پر مسلط کرنا ہے، جو برصغیر میں مسلم دور حکومت کو ظلم و استبداد اور غلامی سے تعبیر کرتی ہے۔ بھارت کا اس سے قبل کوئی ایسا وزیراعظم نہیں گزرا ہے، جس نے اعلانیہ طور پر کسی متنازعہ فلم کی حمایت کی ہو۔ ایک ایسی فلم، جو فرقہ وارانہ جذبات کو بر انگیختہ کر نے والی ہے اور کئی مقامات پر اس فلم  کی نمائش کے خلاف مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ اس سال کے  اوائل میں نمائش کے لئے پیش ہوئی فلم کشمیر فائلز  کے ذریعے کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک کو  دہشت گردی سے جوڑا گیا۔اس موضوع پر بنی اس فلم میں حقائق کو اس قدر مسخ کیا گیا ہے کہ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فلم پروڈیوسر اور فلمی عملے کی ستائش کی تھی جبکہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بقول یہ فلم جھوٹ کا پلندہ ہے، جب کشمیری پنڈتوں نے وادی چھوڑی تھی تو اس وقت  فاروق عبداللہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ نہیں تھے جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے۔ وہاں گورنر راج تھا اور جگموہن گورنر تھے‘ اس طرح کی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے، جو حالیہ برسوں میں فلم ہالوں میں نمائش کے لئے پیش ہوئی ہیں‘ سمراٹ پرتھوی راج کے عنوان سے بنی فلم میں افغانستان کے غور ی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سلطان محمد غوری کا کردارانتہائی منفی طور پر پیش کیا گیاہے  جو اجمیر کا راجا تھا۔ ان دونوں کے درمیان ترائن کے میدان میں دو مرتبہ جنگ ہوئی۔ پہلی جنگ میں غوری کو شکست ہوئی جبکہ دوسری جنگ میں پرتھوی راج  مارا گیا لیکن فلم میں اسے زندہ بتایا گیا جبکہ غوری  مارا جاتا ہے‘ پرتھوی راج  1192 میں میدان جنگ میں مارا گیا جبکہ  محمد غوری کا انتقال 1206 میں ہوا تھا۔ بھارت کی ریاست ہریانہ میں جو آزادی سے قبل پنجاب کا حصہ ہوا کرتا تھا، میں واقع تاریخی پانی پت کے میدان میں تیسری جنگ مراٹھا پیشوا اور افغان حکمراں احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہوئی تھی‘ اس تاریخی جنگ پر 2019 ء میں پانی پت کے عنوان سے فلم بنائی گئی۔  اس فلم میں بھی میں افغان حکمراں کی کردار کشی کی گئی ہے اور مراٹھا فوج کی بہادری کو نمایاں کیا گیا۔ بہرحال ایسی فلمیں لوگوں کے جذبات سے کھیل کر  پیسہ کمانے کا بھی ایک آسان ذریعہ بن گئی ہیں‘ اگنی ہوتری نے کشمیر فائلز سے ساڑھے تین سوکروڑ سے زائد منافع کمایا جبکہ فلم پر لاگت 15کروڑ کی آئی تھی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔