برکس میں توسیع اور اس کے اثرات

ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا، ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو برکس BRICS میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے‘پانچ ملکی اتحاد برکس نے بائیس سے چوبیس اگست کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے اجلاس میں ان ممالک کو دعوت دی ہے کہ وہ آئندہ سال جنوری میں برکس میں شامل ہوجائیں۔ ایران اور سعودی عرب سمیت ان مدعو ممالک نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ انڈونیشیا کو بھی شامل کیا جانا تھا تاہم اسے رکن ممالک کی توثیق نہ مل سکی۔ان سب ممالک خصوصاً ایران کی شمولیت نے برکس کو مزید مغرب مخالف بنادیا ہے۔ اس سے پہلے برازیل، روس، چین، اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک بھی اس کے رکن ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے سابق اتحادیوں مگر اب سے رفتہ رفتہ دور ہونے والے ممالک کہ برکس میں شمولیت کو چین کی فتح کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو آہستہ آہستہ عالمی معیشت پر چھاتا جارہا ہے۔اس طرح برکس اب مغربی قیادت والی عالمی تنظیموں کے جغرافیائی سیاسی متبادل کے طور پر زیادہ واضح شکل میں سامنے آئے گا۔ان ممالک کی شمولیت کے بعد برکس اب مزید متنوع بھی ہوگیا ہے۔ خصوصاًجب چھ نئے ممالک اگلے سال جنوری میں بلاک میں شامل ہوں گے ‘بھارت بھی برکس کا رکن ہے۔ اس کا اور برازیل کا خیال تھا کہ برکس کو مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں اور ایسے ممالک کو شامل کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں مگر چین ان ممالک کی شمولیت کا سب سے بڑا وکیل تھا اور اس کے سخت موقف کے بعد دونوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بھارت کو دراصل پریشانی یہ ہے کہ برکس میں پہلے ہی روس اور جنوبی افریقہ جیسے چین کے قریبی اتحادی موجود ہیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران جیسے چین کے معاشی اور تزویراتی اتحادیوں کی شمولیت کے بعد برکس میں چین کا اثر ورسوخ مزید بڑھ جائے گا۔ چین پاکستان کو بھی برکس میں شامل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح بھارت کو اپنی تنہائی کا خوف لاحق ہے۔ایران کی برکس میں شمولیت ایک بڑی خبر ہے۔ اس پر امریکہ کی پابندیاں عائد ہیں مگر اس نے چین کو روایتی نرخوں پر تیل اور گیس فراہم کرکے اپنی معیشت کو استحکام دیا اور روس کے ساتھ دفاعی اور عسکری رشتہ مستحکم کیا۔ برکس میں اس کی شمولیت کو روس اور چین کی جانب سے انعام قرار دیا جارہا ہے۔ یاد رہے ایران میں دنیا کے دوسرے بڑے گیس کے ذخائر اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ایک چوتھائی ذخائر واقع ہیں اور اس کی معیشت دنیا کی بائیسویں بڑی معیشت ہے۔ ایران نے برکس میں اپنی شمولیت کو ایک تاریخی کامیابی اور تزویراتی فتح قرار دیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ برکس ایجنڈا ایران کے ساتھ توانائی اور تجارتی شعبوں میں رکن ممالک کے تعاون کی حمایت کرتا ہے جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور معاشی طاقتیں، دنیا کو توانائی فراہم کرنے والے بڑے اور مالدار ممالک میں سے ہیں، کی شمولیت بھی امریکہ اور مغربی ممالک کےلئے دھچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب یہ ممالک ماضی کی طرح اپنی سلامتی اور ترقی کے لئے مغربی ممالک پر تکیہ کرنے سے پہلوتہی کریں گے اور چین، ایران اور روس جیسے مغرب مخالف ملکوں کے ساتھ بھی معاشی ، دفاعی اور تزویراتی تعلقات بڑھائیں گے۔ تیل کی پیداوار، یوکرین جنگ اور شام و ایران سے تعلقات کے ضمن میں یہ دونوں پہلے ہی سے مغرب مخالف موقف اپناچکے ہیں۔سعودی عرب نے کہا ہے کہ برکس معاشی تعاون مضبوط بنانے کےلئے فائدہ مند اور اہم چینل ہے اور ہم اس میں شمولیت کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم برکس میں شمولیت کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے اور یکم جنوری سے پہلے شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔ارجنٹائن، جو برازیل اور میکسیکو کے بعد لاطینی امریکہ کی تیسری بڑی معیشت تھی تاہم اب اس کی معیشت مشکلات کی شکار ہے، نے بھی برکس میں اپنی شمولیت کو ایک اہم معاشی موقع قرار دیا ہے‘ اس کی شمولیت کےلئے برازیل اور چین نے حمایت کی۔